میرے باپ نے ایک پلاٹ میرے حوالے کیا ہے کہ اس کو بیچ کر آپ باہر ملک تعلیم کے لیے چلے جاؤ، اب وہ پلاٹ ابھی تک نہیں بیچا گیا اور باپ نے وہ مجھے حوالہ کیا ہے تو کیا اس پر قربانی واجب ہے ؟
اسی طرح میری خالہ نے مجھے ایک تولہ زیور دیا ہے کہ اس کو بیچ کر اپنے باہر جانے کے اخراجات میں اس کو شامل کر لو ،لیکن ابھی تک میں نے وہ نہیں بیچا ،تو کیا مجھ پرقربانی واجب ہے ؟
واضح رہے کہ قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس عید کے دنوں میں بنیادی ضرورت سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر نقد رقم یا اس کے بقدر حوائج اصلیہ اور استعمال سے زائد سامان ہو،اورحوائج اصلیہ سے مراد وہ ضرورت کی اشیاء ہیں جو جان اور آبرو سے متعلق ہو ں ،یعنی ان کے پورا نہ ہونے سے جان یا آبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہائش کا مکان، اہل صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار وغیرہ ۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو جو پلاٹ والد نے تعلیمی اخراجات کے لیے حوالہ کیا اور جو ایک تولہ زیور خالہ نے دیا، اگر ان دونوں اموال پر سائل کو مکمل قبضہ اور تصرف دے کر مالک بنا دیا گیا ہے، تو سائل ان پلاٹ اور زیور کا مالک شمار ہوگا۔پس اگر ان دونوں کی قیمت نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو،اورایام عیدمیں موجودہ چیزیں یاان کی رقم موجود ہو تو سائل پر قربانی واجب ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".
(كتاب الزكوٰٰة، الباب الثامن في صدقة الفطر، ج:1،ص:191،ط:رشيديه)
فتادی شامی میں ہے:
"(و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه
(قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة كما أن الماء المستحق بصرفه إلى العطش كان كالمعدوم وجاز عنده التيمم."
(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:262، ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144611100895
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن