قربانی کے جانور کی کھال کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کو دفن کرنا جائز ہے؟ اس حال میں کہ ہندوستان کے حکمران گائے کے ذبح کرنے پر سخت کاروائی کرتے ہیں، قربانی کے جانور کی کھال خرید فروخت بند ہو گئی ہے، لہذا اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
قربانی کی کھال کا مصرف وہی ہے، جو قربانی کے گوشت کا مصرف ہے، یعنی اس کو اپنے استعمال میں لانا بھی جائز ہے اور کسی کو ہدیہ کرنا (چاہے وہ امیر یا غریب ہو) بھی جائز ہے، لیکن اگر اس کو بیچ دیا جائے، تو پھر اس کا مصرف وہی ہے جو زکات کا مصرف ہے، یعنی اس کی قیمت کسی غریب مستحقِ زکات شخص کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے۔
نیز کھال ایک قیمتی چیز ہے اور اس کو دفنانے میں مال کا ضیاع ہے، جو کہ ناجائز ہے، لہٰذا اگر کھال بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کرنا ممکن نہ ہو، تو اس کو خود استعمال میں لے لے، یا کسی اور کے استعمال میں دے دے، تاکہ مال ضائع ہونے سے بچ جائے۔
البحر الرائق میں ہے:
"قال - رحمه الله -: (ويتصدق بجلدها، أو يعمل منه نحو غربال، أو جراب) لأنه جزء منها وكان له التصدق والانتفاع به ألا ترى أن له أن يأكل لحمها ولا بأس بأن يشتري به ما ينتفع بعينه مع بقائه استحسانا وذلك مثل ما ذكرنا لأن للبدل حكم المبدل ولا يشتري به ما لا ينتفع به إلا بعد الاستهلاك، نحو اللحم والطعام ولا يبيعه بالدراهم لينفق الدراهم على نفسه وعياله والمعنى فيه أنه لا يتصدق على قصد التمول، واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح فلا يبيعه بما لا ينتفع به إلا بعد الاستهلاك ولو باعها بالدراهم ليتصدق بها جاز لأنه قربة كالتصدق بالجلد واللحم وقوله: - عليه الصلاة والسلام - «من باع جلد أضحيته فلا أضحية له» يفيد كراهية البيع، وأما البيع فجائز لوجود الملك والقدرة على التسليم."
(كتاب الأضحية، ج:8، ص:203، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی رحیمیہ میں ہے :
"گوشت کا دفن کردینا جائز نہ ہوگا کہ اضاعتِ مال ہے۔"
(کتاب الاضحیۃ ،ج:10، ص:23، ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101098
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن