1.قربانی کے ارادہ سے بڑا جانور خرید کر پھر کسی کو حصہ میں شریک کرنا اگر سات آدمیوں سے کم لوگوں (مثلا پانچ) نے قربانی کا بڑا جانور خرید لیا تو کیا یہ لوگ اس خریدے گئے جانور میں ذبح کرنے سے پہلے مزید اور لوگ (چھٹا اور ساتواں) شریک کر سکتے ہیں؟
الف۔ اگر قربانی خریدنے والے سارے لوگ صاحبِ نصاب ہوں اور ان لوگوں نے قربانی خریدتے وقت مزید لوگ شامل کرنے کی نیت کی ہو۔
ب۔ اگر قربانی خریدنے والے سارے لوگ صاحبِ نصاب ہوں اور ان لوگوں نے قربانی خریدتے وقت مزید لوگ شامل کرنے کی نیت نہ کی ہو ۔
ج۔ اگر قربانی خریدنے والے سارے لوگ یا ان میں سے بعض غیر صاحبِ نصاب ہوں اور ان لوگوں نے قربانی خریدتے وقت مزید لوگ شامل کرنے کی نیت کی ہو۔
د۔ اگر قربانی خریدنے والے سارے لوگ یا ان میں سے بعض غیر صاحبِ نصاب ہوں اور ان لوگوں نے قربانی خریدتے وقت مزید لوگ شامل کرنے کی نیت نہ کی ہو۔
2. مختلف افراد کا مل کر ایک حصہ نفلی قربانی کے لئے خریدنے کا کیا حکم ہے؟
الف۔ اگر ان مختلف افراد کا اس قربانی کے جانور میں اس نفلی حصے کے علاوہ مکمل حصہ ہو۔
ب۔ اگر ان مختلف افراد کا اس قربانی کے جانور میں اس نفلی حصے کے علاوہ کوئی اور حصہ ہی نہ ہو۔
ج۔ مختلف افراد کا نفلی قربانی کے لئے قربانی کا چھوٹا جانور (بھیڑ،بکری) خریدنے کا کیا حکم ہے؟
3. اگر ایک شخص نےقربانی کا جانور خریدنے کے بعد اسے زیادہ رقم پر بیچ دیا اور نفع میں حاصل شدہ رقم صدقہ کرنے کے بجائے اپنے پاس رکھ لیا تو اس کا کیا حکم ہے؟
1. صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ پانچ افراد مال دار ہیں یعنی صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے ان پر قربانی لازم ہے اور قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:
الف ۔ خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت میں کسی قسم کی کراہت کے بغیر مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا، البتہ بہتر یہی ہے کہ خریدنے سے پہلے شریک کرے۔
ب۔خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت نہیں کی تھی تو ایسی صورت کسی اور کو اس میں شریک کرنا مکروہ ہوگا، البتہ اگر کرلے تو بھی سب کی قربانی ہوجائے گی۔
اور اگر مذکورہ خریدار مال دار نہیں، بلکہ بعض یا سب غریب ہیں اور قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں:
الف (ج)۔ خریدتے وقت مزید افراد کو بھی اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا۔
ب(د)۔ خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت نہیں کی تھی تو غیر صاحبِ نصاب شخص کے قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے وہ اس پر قربانی کے لیے لازم ہوگیا، لہذا اب کسی اور کو شریک نہیں کیا جاسکتا،اگر شریک کرلیا تو باقی حصوں کی رقم صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
2. (الف، ب، ج) نفلی قربانی کے لیےبڑے جانور میں ایک حصہ خریدنا یا چھوٹا جانور خریدنا درست ہے، البتہ مشترکہ طور پر نفلی قربانی کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ تمام شرکاء اپنے اپنے حصے کی رقم کسی ایک شریک کو ہدیہ کر دیں، اور پھر وہ ایک اپنی طرف سے نفلی قربانی کرے؛ کیوں کہ قربانی کے لیے ضروری ہے کہ مکمل حصہ ایک بندے کی طرف سے ہو اور ثواب ان شاء اللہ سب کو ملے گا، لہذا صورتِ مسئولہ میں شرکاء کا بڑے جانور میں حصہ ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں نفلی قربانی اس طرح جائز ہے کہ تمام شرکاء کسی ایک شریک کو پیسے ہدیہ کریں اور وہ ایک شریک اپنی طرف سے ہی نفلی قربانی کر لے، ان شاء اللہ ثواب سب کو ملے گا،اور چھوٹے جانور میں بھی یہی حکم ہے کہ بہت سارے افراد مل کر اگر چھوٹے جانور میں قربانی کرنا چاہتے ہیں تو وہ سب کسی ایک بندے کو پیسے ہدیہ کریں پھر وہ اپنی طرف سے چھوٹے جانور کی قربانی کرے۔
3. صورتِ مسئولہ میں اگر قربانی کا جانور غریب خریدے تو اس کے لیے جانور آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مالدار آدمی قربانی کی نیت سے جانور خریدے او رپھر اس کوقیمتِ خرید سے زیادہ پر فروخت کرے تو قربانی کے لیے دوسرا جانور اتنے کا ہی لے جتنے کا پہلا فروخت کیا تھا، اور اگر دوسرا جانور کم قیمت پر خریداتوپہلے اور دوسرے جانور کی قیمت میں جتنا فرق ہو اس کو صدقہ کرنا ضروری ہو گا، تاحال اگر صدقہ نہیں کیا تو اب مذکورہ رقم کو صدقہ کرلے۔
نوٹ: دار الافتاء کے ضابطے کے مطابق ایک استفتاء میں تین سے زائد سوالات نہیں لیے جاتے، لہذا آئندہ اس امر کو ملحوظ رکھ کر سوال ارسال کریں، اگر سوالات زیادہ ہوں تو ایک استفتاء میں تین سوالات پوچھیں اور باقی سوالات کے لیے الگ استفتاء لکھیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
" (وصح) (اشتراك ستة في بدنة شريت لأضحية) أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا (استحساناً وذا) أي الاشتراك (قبل الشراء أحب،(قوله: أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا)، كذا في بعض النسخ، والواجب إسقاطه كما في بعض النسخ ؛ لأن موضوع المسألة الاستحسانية أن يشتريها ليضحي بها عن نفسه، كما في الهداية والخانية وغيرهما، ولذا قال المصنف بعد قوله استحساناً: وذا قبل الشراء أحب. وفي الهداية: والأحسن أن يفعل ذلك قبل الشراء؛ ليكون أبعد عن الخلاف وعن صورة الرجوع في القربة اهـ. وفي الخانية: ولو لم ينو عند الشراء ثم أشركهم فقد كرهه أبو حنيفة.
أقول: وقدمنا في باب الهدي عن فتح القدير معزواً إلى الأصل والمبسوط: إذا اشترى بدنةً لمتعة مثلاً ثم أشرك فيها ستة بعدما أوجبها لنفسه خاصة لايسعه؛ لأنه لما أوجبها صار الكل واجباً بعضها بإيجاب الشرع وبعضها بإيجابه، فإن فعل فعليه أن يتصدق بالثمن، وإن نوى أن يشرك فيها ستةً أجزأته؛ لأنه ما أوجب الكل على نفسه بالشراء، فإن لم يكن له نية عند الشراء ولكن لم يوجبها حتى شرك الستة جاز. والأفضل أن يكون ابتداء الشراء منهم أو من أحدهم بأمر الباقين حتى تثبت الشركة في الابتداء اهـ ولعله محمول على الفقير أو على أنه أوجبها بالنذر، أو يفرق بين الهدي والأضحية تأمل."
(كتاب الأضحية، ج: 6، ص: 317، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو اشترى بقرةً يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكماً، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسراً، وإن كان فقيراً معسراً فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها."
(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، ج: 5، ص: 304، ط: دار الفكر بيروت)
وفیه أیضاً:
"ولو باع الأضحية جاز، خلافاً لأبي يوسف رحمه الله تعالى، ويشتري بقيمتها أخرى ويتصدق بفضل ما بين القيمتين."
(كتاب الأضحية، الباب السادس في بيان ما يستحب في الأضحية والانتفاع بها، ج: 5، ص: 301، ط: دار الفكر بيروت)
وفیه أیضاً:
"والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة."
(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، ج: 5، ص: 304، ط: دار الفكر بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس. فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء."
(كتاب التضحية، ج: 5، ص: 70، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512100947
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن