میں نے اسلام آباد میں دو پلاٹ قسطوں پر لیے ہیں ،چار لاکھ چالیس ہزار قسط ادا کرچکا ہوں ۔اگر میں ان پلاٹوں کو بیچوں تو اس پر موجودہ ویلیو کے حساب سے منافع لینا جائز ہے ؟جب کہ ابھی پلاٹ کی پوری قیمت بھی ادا نہیں ہوئی ہے ،ایک پلاٹ کی جو قیمت لینے کے وقت تھی وہ ساڑھے نو لاکھ تھی۔
واضح رہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی پلاٹ خرید لیا اور مکمل قیمت تاحال ادا نہیں کی، لیکن مالکانہ حقوق کے ساتھ بائع اور مشتری کے درمیان خرید وفروخت کا معاملہ ہو چکا ہے تو خریدنے والا اس پلاٹ کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کی قیمت خریدار کے ذمہ دین (قرض ) ہوتی ہے، اب اگر خریدار اس کو کسی اور شخص کو فروخت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے آگے فروخت کرنا جائز ہے۔ خواہ نقد فروخت کرے یا قسطوں پر فروخت کرے۔ البتہ اگر ابھی تک پلاٹ متعین نہ ہو، یعنی کسی پروجیکٹ میں پلاٹ کی فائلیں فروخت ہورہی ہوں، لیکن ابھی تک پروجیکٹ کی جگہ یا حدودِ اربعہ یا پلاٹ متعین نہ ہوئے ہوں تو ایسے پلاٹ کی فائل کو نفع پر آگے بیچنا جائز نہیں ہوتا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ نے جو پلاٹ قسطوں پر خریدے ہیں اگر مکمل مالکانہ حقوق کے ساتھ آپ کا معاملہ طے ہوچکا ہے، تو اس صورت میں مکمل اقساط کی ادائیگی سے پہلے بھی آپ موجودہ قیمت کے حساب سے نفع رکھ کر ان پلاٹوں کو نقد یا قسطوں پر آگے فروخت کرسکتے ہیں۔
"البحرالرائق " میں ہے:
’’ (قوله : صح بيعالعقارقبل قبضه ) أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف ، وقال محمد: لايجوز لإطلاق الحديث ، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسًا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه؛ لأن الهلاك في العقارنادر بخلاف المنقول ، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد ، والحديث معلول به عملًا بدلائل الجواز.‘‘(16/228)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205201465
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن