بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

نشہ کرنے والے کا مال اس کے حوالے نہ کیا جائے


سوال

والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے انہوں نے 2 پلاٹ ترکہ میں چھوڑے ہیں، جن کی قیمت تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ہے، ورثاء میں ایک بیوہ ، پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔سوالات درج ذیل ہیں ۔

1.میراث کیسے تقسیم ہو گی؟

2.مرحوم کا ایک بیٹاجواری ہےاور نشہ کرتا ہے، اس کے حصہ کی رقم کی اس نشہ کرنے والے بیٹے کو دی جاسکتی ہے، جس کے بارے میں غالب گمان یہ ہےکہ وہ اپنا سارا مال شراب، کباب میں اڑا دے گا، جب کہ قرآن میں ارشاد ہے کہ نابالغوں کو ان کا مال سمجھ داری کے بعد دو، یعنی جب ان میں شعور آجائے، اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے کہ ایسے نشہ کرنے والے بیٹے کی وراثت کس کو ملے گی  اس کی اولاد اور بیوی بھی نہیں ہے۔

3۔بیوہ کا وراثت میں حصہ کتنا ہے؟ اور وہ کہتی ہے کہ میں اپنا ساراحصہ مسجد میں دے دوں گی، شریعت کا کیا حکم ہے کہ ماں (مرحوم کی بیوہ)کے حصے کی رقم مسجد میں دی جائے گی یا اولاد میں تقسیم ہو گی ۔

4۔کیا پلاٹوں کو فروخت کر کے ان کی رقم وراثت میں ادا کی جائے گی،یا پلاٹ  ہی تقسیم ہوں گے، مثلاًماں( مرحوم کی بیوہ) کا کہنا ہے کہ دونوں پلاٹ پانچ بھائی آپس میں تقسیم کر لو اور بہنوں کو ان کے حصے کے پیسے   دے دو ۔کیااس طرح بہنوں کا حق ادا ہو جائے گا؟ 

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر ان پر کوئی قرض ہو تو  ترکہ سےاس کو ادا کرنے کے بعد ، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی  ترکہ کےایک تہائی میں ا سے  نافذ کرنے کے بعد ، بقیہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ   ترکہ کو96 حصوں میں تقسیم کرکے 12 حصے مرحوم کی بیوہ کو 14، 14حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 7،7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت (مرحوم والد):96/8

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
12141414141477

یعنی فیصد کے اعتبار سے12.5فیصدمرحوم کی بیوہ کو ،14.583 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور7.291فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

پس ترکہ میں شامل پلاٹوں کی قیمت ایک کروڑ بیس لاکھ روپے میں سے 15,00,000 روپےبیوہ کو ،1750,000 روپےہر ایک بیٹے کو اور8,75,000 روپےہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

2۔مرحوم کا جو بیٹا نشہ کرتاہے اس کے بارے میں اگر یقین ہو کہ وہ وراثتی حصہ جوا اور شراب کباب میں اڑا دے گا، تو اس کا حصہ بھائی بہنوں میں سے کوئی بطورِ امانت رکھ لے، اور حسبِ ضرورت اس میں سے مذکورہ بھائی کی کفالت کرتا رہے، اور اس میں خیانت نہ کرے۔

3۔شوہر کے ترکہ کے آٹھویں حصے یعنی12.50 فیصد  کی حقدار مرحوم کی بیوہ ہے،بیوہ اپناحصہ وصول کرنے کے بعد اس میں تمام جائز تصرفات کی حقدار ہو گی؛لہذا اگر وہ اپنے حصے کی رقم مسجد میں دینا چاہے تو  دے سکتی ہے، تاہم اپنا کل سرمایہ دینے کے بجائے ایک تہائی سرمایہ مسجد میں دینا بہتر ہوگا۔

4۔والد مرحوم کے ترکہ میں شامل تمام اشیاء میں مرحوم کے تمام ورثاء حصص شرعیہ کے تناسب سے شریک ہیں، ہر چیز الگ الگ تقسیم کرنا ضروری ہو گا، البتہ اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے اس طور پر تقسیم کرنے  تیار ہوں کہ بعض ورثاء کو ان کے حصے کے عوض نقد رقم دے دی جائے، تو ایسا کرنے کی شرعاً اجازت ہو گی، تاہم ورثاء کا اس طرح تقسیم پر راضی ہونا ضروری ہو گا، محض والدہ کی خواہش پر مرحوم کی بیٹیوں کی رضامندی کے بغیر انہیں نقد رقم دینے کی اجازت نہ ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعندهما يحجر على الحر بالسفه و) الغفلة و (به) أي بقولهما (يفتى) صيانة لماله وعلى قولهما المفتى به."

(کتا ب الحجر، ج:6، ص:148، ط سعید)

درر الحكام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"لا يمنع أحد من ‌التصرف ‌في ‌ملكه ما لم يكن فيه ضرر فاحش للغير."  

الكتاب العاشر الشركات، (المادة 1197) لا يمنع أحد من ‌التصرف ‌في ‌ملكه ما لم يكن فيه ضرر فاحش للغير، ج:3، ص:210، ط دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144611101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں