اہلِ سنت والجماعت علمائے دیوبند کہتے ہیں کہ نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا بدعت ہے، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾۔ تو بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ تمہارے کہنے سے ہم نہیں رکتے، تم یہ دکھا دو کہ کس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، ہم رک جائیں گے۔
واضح رہے کہ سورۂ حشر کی مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾(یعنی: رسول تمہیں جو کچھ عطا کریں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز آ جاؤ۔)اس آیتِ کریمہ سے یہ شرعی اصول ثابت ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ جس چیز سے بھی نہی اور ممانعت فرمادیں،اس سے رک جانا لازم ہے ، خواہ وہ نہی اور ممانعت کوئی مخصوص جزئیہ بیان کرنے کی صورت میں ہو یا کسی عمومی قاعدے کی صورت میں ہو۔یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ حضور سرورِ کونین ﷺ کی طرف سے کسی چیز سے نہی اور ممانعت کی دو صورتیں ہوا کرتی تھیں:
بدعت بھی اسی دوسری قسم میں داخل ہے۔ اس لئے کہ بدعت کہتے ہیں: ہر اس نئے کام کو جودین کا حصہ نہ ہو، اور اُسے دین سمجھ کر کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ قیامت تک اس طرح کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں امور ایسے ہو سکتے ہیں، جنہیں دین سمجھ کر انجام دیا جا ئے۔
اب اگر حضورِ اقدس ﷺ ان تمام ممکنہ بدعات کا ایک ایک کر کے نام لیتے اور ان سے ممانعت فرماتے،تو اس کے لئے ہزاروں صفحات بھی ناکافی ہوتے۔ اس لئے آپ ﷺ نے ہر بدعت کا الگ الگ تذکرہ فرمانے کے بجائے امت کے لئے ایک جامع اور راہ نما اصول ارشاد فرما دیا، جو قیامت تک آنے والی ہر بدعت پر صادق آئے گا۔وہ اصول یہ ہے:«من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردٌ»یعنی: ”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی، جو اس میں سے نہیں تھی، تو وہ مردود ہے۔“اور ایک اور روایت میں فرمایا:«إياكم ومحدثات الأمور، فإن شر الأمور محدثاتها، وكل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة»یعنی: ”دین میں نئی چیزوں سے بچو، کیونکہ دین میں نئی چیزیں بدترین امور ہیں، اور(دین میں) ہر نئی چیزبدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
لہٰذا اب قیامت تک جس چیز پر یہ اصول منطبق ہو گا، وہ بدعت شمار کی جائے گی، خواہ وہ کسی بھی شکل و صورت میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ علماءِ حق بدعت کی پہچان کے لئے اسی قاعدے کو معیار بناتے ہیں، اور ہر اس عمل کو، جو دین کا حصہ نہ ہو اور دین سمجھ کر کیا جا رہا ہو، بدعت قرار دیتے ہیں۔
چونکہ، نمازِ جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا بھی رسول اللہ ﷺ،صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے کہیں بھی ثابت و منقول نہیں ہے ،اس لئےیہ عمل بھی بدعت کے بارے میں وارد ہونے والی مذکورہ احادیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے ممنوع اور بدعت ہے۔اسی وجہ سے فقہ حنفی کی متعدد معتبر کتب میں اس عمل کو قابلِ ترک اور ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس عمل کے بدعت اور ممنوع ہونے پر صریح اور مخصوص حدیث کا مطالبہ کرنا محض غلط فہمی اور کم علمی کی دلیل ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد »."
(صحيح مسلم، كتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور، رقم الحديث:1718، ج:5، ص:132، ط:دار طوق النجاة - بيروت)
"عن عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إياكم ومحدثات الأمور، فإن شر الأمور محدثاتها، وإن كل محدثة بدعة، وإن كل بدعة ضلالة» ."
(السنة لابن أبي عاصم، باب ذكر ما زجر النبي صلى الله عليه وسلم عن محدثات الأمور وتحذيره منها، رقم الحديث:25، ج:1، ص:16، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
المحیط البرہانی میں ہے:
"ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء."
(كتاب الصلاة، الفصل الثاني والثلاثون، ج:2، ص:205، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة؛ لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة."
(كتاب الجنائز، باب المشي بالجنازة والصلاة عليها، رقم الحديث:1687، ج:3، ص:1213، ط:دار الفكر، بيروت)
الفتاویٰ البزازیۃ میں ہے:
"لایقوم بالدعاء بعد صلاۃ الجنائز لأنه دعا مرۃً،لأن أکثرها دعاء."
(کتاب الصلاۃ،الفصل الخامس والعشرون في الجنائز، ج:1، ص:72، ط:دار الكتب العلمية)
التجنیس والمزید میں ہے:
"لا یقوم بالدعاء بعد صلاۃ الجنـــازۃ؛لأنه دعــــامرۃً،لأن صلاۃ الجنازۃ أکثرها دعاء."
(كتاب الصلاة، باب فى الجنائز، فصل فى الصلاة(على الميت)، ج:2، ص:271، ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102983
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن