بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آنا


سوال

عوام الناس میں خاص طور پر بریلوی طبقہ نے یہ بات مشہور کی ہوئی ہے اس کو مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ بقول مولانا تھانوی کے اگر کسی کو نماز میں گدھے کا خیال آ جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی، جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نماز میں آ جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، کیا اس بات کی کوئی حقیقت ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ قول حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرکے بیان کیا جاتا ہے اس کی کوئی  ِ حقیقت  نہیں ہے ،بلکہ اس قول كا مطلب یہ ہے کہ نماز  موقع ِعبادت ہے ،اس موقع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور علی جہۃ التعظیم والعبادۃ نہ آنا چاہیے ۔

نماز حق تعالٰی  کی عبادت بلا شرکت غیرے ہے ،عبادت میں معبود کی عظمت اور جلال وجبروت کا تصور بھی  مقصود ہے اور اسی پر اقتصار ہونا چاہیے  ،کسی دوسرے کا تصور بجہت تعظیم نہ ہونا چاہیےیہ ظاہر ہے کہ نماز میں قرآن مجید پڑھا جاتا ہے ،قرآن مجید میں انبیاء علیہم الصلوات کے  اسماء مبارک آتے ہیں ،ان کے قصے واقعات مذکور ہے ،فرعون ،ہامان اور دیگر کفار کے نام بھی آتے ہیں ،شیطان کا نام بھی آتا ہے ،جس سے پناہ مانگی جاتی ہے اور جن مکرم و معظم ہستیوں کے اسمائے گرامی  اور قصص قرآن پاک کے نظم عبارت میں  زبان پر آئیں گے ان کا تصور اور خیال لازمی طور پر آئے گا ،اسی طرح فرعون ،ہامان اور شیطان کا جب نام لیا جائے گا تو ان کی طرف بھی خیال جائے گا اور اس کو آج تک کسی نے بھی قابل ِ اعتراض  نہیں کہا ؛لہذا اگر کوئی شخص نمازمیں حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم  کا تصور   بجہت تعظیم عبادت کے کرے تو یہ بڑا گناہ اور شرک فی العبادۃ ہوگا  اور اس سے نماز بھی باطل ہوجائے گی اور مغفرت کی بھی امید نہیں ،اور اس صورت میں یہ تصور کسی ایسے شخص یا شیئ کے تصور سے زیادہ مضر ہے ،جس کی تعظیم ( عبادت) متصور نہیں ہوسکتی کہ اس تصور سے عبادت کے خلوص اور خشوع  میں تو نقصان آئے گا ،لیکن شرک لازم نہیں آئے گا ،اس قول  کا اس کے علاوہ  اور کوئی مطلب ہے، نہ ہوسکتا ہے ۔

( مستفاد از کفایت المفتی،کتاب العقائد ،ج:1،ص:247،دارالاشاعت)

عبارات اکابر میں ہے :

"ارواح وفرشتوں کا کشف وخیال خود بخود مسائل کا دل میں آجانا نماز کے لیے مضر ومخل نہیں ہے یعنی مثلاً اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کا ،اسی طرح دیگر انبیائے کرام  واولیائے عظام علیہم الصلاۃ والسلام کی ارواح کا یا فرشتوں کا سنوح کشف وخیال خود بخود نماز میں آجائے یا خود بخود عجیب وغریب مسائل دل میں پیدا ہوجائیں تو ان سے نماز میں کچھ خلل نہیں آتا بلکہ یہ ایک بڑی نعمت ہے جو کاملین کو حاصل ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔اس افادہ اور عبارت میں اصل مقصود یہ ہے کہ نماز کو صحیح معنی میں  نماز بنایا جائے کہ اس میں قصداً وارادۃً صرف اللہ کی تعظیم واجلال ہی مقصود  نظر ہو اور اس انداز سے نماز کو ادا کرے کہ نفس اور شیطان کے تمام حربوں کو بے کار کرکے  اپنی باطنی نگاہ  اور دھیان صرف اللہ رب العزت کی طرف رکھے اور اس طریق سے نماز کو پڑھے کہ گویا وہ آنکھوں کے ساتھ پروردگار کو دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔صراظ ِ مستقیم کی اس  ساری عبارت کا خلاصہ اور ماحصل یہی حضور ِ قلب ہے اور کسی سمجھ دار پر یہ مخفی نہیں ہوسکتا ۔

اس عبارت میں تصریح ہے کہ خود بخود ارواح و فرشتوں کا اور مسائل کا کشف وسنوح اور خیال نماز کے لیے مضر نہیں کیوں کہ اس میں  انسان کے قصد وارادہ کا دخل  ہی نہیں اور یہ خیال غیر اختیاری طور پر آتا ہے ،ہاں غیر اللہ کی طرف  نماز میں صرف ہمت یعنی قصداً اپنی پوری توجہ  ماسوی اللہ کی طرف مبذول کردینا نماز کے لیے مضر ہے اس لیے کہ جب کسی نے اپنے ارادہ سے اپنی پوری توجہ غیر اللہ کی طرف صرف کردی  تو جس کی بندگی اور عبادت میں مصروف تھا اور جس کے لیے نماز پڑھ رہا تھا اس سے غفلت اور بے پرواہی برتی اور ہر کس وناکس جانتا ہے  کہ نماز وبندگی اور عبادت  تو ہو پروردگار کی ،لیکن پوری توجہ ہو دوسری طرف اور اپنے  حقیقی آقا سے  بے نیازی  ہو گو غیر شعوری پر ہی سہی تو ایسی نماز کیا نماز ہوگی ؟اور ایسی عبادت کو عبادت کا درجہ کیا حاصل ہوگا؟ ."

(ص:94،مکتبہ صفدریہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603100891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں