1۔اگر چادر،ٹو پی،بنیان،جائے نماز اِن اشیاء کو ایک درہم کے بقدر یا اس سے کم نجاست غلیظہ لگ جائےتو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے؟ جیسے کہ اگر کپڑے میں اتنی نجاست ہو تو نمازپڑھنا جائز ہے۔
2۔وتر کی تیسری رکعت میں سجدے میں جانے سے پہلے فجر کی اذان ہو جائے تو اس کا اعادہ ضروری ہے؟
3۔جو شخص موبائل کے ذریعے تصویر اور ویڈیوز بنانے پر مصر ہو،ایسے شخص کو گواہ بنانا،یااسےامام بنانا صحیح ہے؟کیا اس عمل کی وجہ سے وہ فاسق ہو جاتا ہے؟اور اس کے مستحل کا کیا حکم ہے؟
4۔اگر کسی کی جیب کے اندر کوئی ناپاک چیز ہو جیسےناپاک رومال وغیرہ کیا اس کے ساتھ نماز فاسدہو جاتی ہے؟
5۔اگر کوئی شخص لاعلمی میں تہجد کی نماز صبح کی اذان کے بعد پڑھ لے تو اس پر دوبارہ پڑھناضروری ہے یا نہیں؟
1۔ چادر (ایسی کہ اگر اس کا ایک کونا ناپاک ہوتو نمازی کی حرکت سے اس ناپاک حصہ میں حرکت ہوتی ہو)، ٹوپی، بنیان،اور جائے نماز ( میں وہ جگہیں جہاں نمازی کے اعضاء لگتے ہیں)،ان چیزوں کو اگر پتلی اور بہنے والی نجاست غلیظہ لگ جائے جیسے آدمی کا پیشاب وغیرہ اور وہ نجاست ایک درہم کی مقدار (یعنی ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے) سے کم یا ایک درہم کے برابر ہو یا ان چیزوں کو گاڑھی نجاستِ غلیظہ لگ جائے، جیسے پاخانہ وغیرہ اور وہ نجاست وزن میں ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہواور لاعلمی میں اسی نجاست کے ساتھ نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی، دہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی، تاہم علم ہونے کے باوجود اس مقدار نجاست کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
2۔وتر کی نمازمکمل ہونےسے پہلے اگرفجر کی اذان ہو جائے تووترکو مکمل کر لینا چاہیے، بعد میں اس کا اعادہ لازم نہیں ہے۔
3۔اگر کوئی شخص بلا ضرورتِ شدیدہ موبائل کے ذریعے جان دار کی تصویر اور ویڈیوز بناتا ہے تو ایسے شخص کی گواہی قبول کرنا شرعا قاضی کے لیے واجب اور ضروری نہیں ہے۔اور ایسے شخص کی امامت مکروہ ہے، البتہ اس کی اقتدا میں نماز ہو جائے گی اور جماعت کا ثواب مل جائے گا۔ اور موبائل کے ذریعہ جان دار کی تصویر اور ویڈیوز بنانے کوحلال سمجھنا گناہ کبیرہ ہے،ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم اور ضروری ہے۔
4۔اگر کسی کے جیب میں ناپاک رومال یا کوئی اور چیز ہو اور وہ ناپاکی اتنی مقدار میں ہو کہ جس کے ساتھ نماز جائز نہیں ہوتی تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
5۔اگر کوئی شخص لاعلمی میں تہجد کی نماز صبح کی اذان کے بعد پڑھ لے تو اسے ضابطہ شرعیہ کی رو سے تہجد قرار نہیں دیا جائے گا، البتہ اس کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"أي شيء متصل به يتحرك بحركته كمنديل طرفه على عنقه وفي الآخر نجاسة مانعة إن تحرك موضع النجاسة بحركات الصلاة منع وإلا،"
(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج:1، ص:402، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"وقد نقله أيضا في الحلية عن الينابيع، لكنه قال بعده: والأقرب أن غسل الدرهم وما دونه مستحب مع العلم به والقدرة على غسله، فتركه حينئذ خلاف الأولى، نعم الدرهم غسله آكد مما دونه، فتركه أشد كراهة كما يستفاد من غير ما كتاب من مشاهير كتب المذهب.ففي المحيط: يكره أن يصلي ومعه قدر درهم أو دونه من النجاسة عالما به لاختلاف الناس فيه."
(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:317، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تطهير النجاسة من بدن المصلي وثوبه والمكان الذي يصلي عليه واجب. هكذا في الزاهدي في باب الأنجاس."
(کتاب الصلاۃ، الفصل الأول في الطھارۃ وستر العورۃ، ج:1، ص:58، ط:دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما فيجب غسله وما دونه تنزيها فيسن وفوقه مبطل (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."
(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:318، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو صلى على بساط وفي ناحية منه نجاسة إن لم تكن في موضع قدميه ولا في موضع سجوده لا تمنع أداء الصلاة سواء كان البساط كبيرا أو صغيرا بحيث لو حرك أحد طرفيه يتحرك الطرف الآخر هو المختار."
(کتاب الصلاۃ، الفصل الأول في طھارۃ مایستر بہ العورۃ، ج:1، ص:62، ط:دار الفکر)
مجمع الانہر في شرح ملتقى الابحرمیں ہے:
" وإلى أنه لو شرع في الوقتية عند الضيق ثم خرج الوقت في خلالها لم تفسد."
(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ج:1، ص:164، ط:أحیاء التراث العربي)
فتاوی شامی میں ہے:
"وينفرد شرط الانعقاد عن شرط الدوام وعن شرط البقاء في الوقت بالنسبة إلى بقية الصلوات فإنه شرط انعقاد فقط إذ لا يشترط دوامه ولا وجوده حالة البقاء."
(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج:1، ص:401، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاۃ وما یکرہ فيھا، ج:1، ص:647، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"فإن قيل: يلزم من هذا أداء الصلاة بلا طهارة في إحدى المرتين وهو مستلزم للكفر فينبغي وجوب الجمع بينهما في أداء واحد. قلنا: كل منهما مطهر من وجه دون وجه، فلا يكون الأداء بلا طهارة من كل وجه، فلا يلزمه الكفر كما لو صلى حنفي بعد نحو الحجامة لا تجوز صلاته ولا يكفر للاختلاف"
(کتاب الطھارۃ، باب المياہ، ج:1، ص:227، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144611101444
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن