بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 محرم 1447ھ 27 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

محمد مقیت یا مقیت خان نام رکھنا


سوال

عموماََ بچوں کے نام جب اللّٰہ تعالیٰ کے نام پر رکھے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ "عبد" لگایا جاتا ہے، جیسے: "عبدالسلام عبد العزیز" وغیرہ۔ کیا اللّٰہ کے ہر نام کے ساتھ "عبد" لگانا لازمی ہے؟ ایک بچے کا نام عبدالمقیت ہے۔ اگر اس کا نام "عبدالمقیت "کےبجائے "محمد مقیت" یا" مقیت خان" رکھا جائے تو کیا صحیح ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی کے وہ صفاتی نام جو اللہ کے ساتھ خاص ہیں ،بندوں کے لیے اس کا استعمال  جائز نہیں البتہ اگر ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" لگانا ضروری ہے ؛لہذا اگر کوئی شخص ان ناموں کو "عبد" کی اضافت کے بغیر استعمال کرے تو اس طرح کرنا ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے،البته وہ اسماء جو اللہ کي صفات خاصہ میں سے نہیں ؛بلکہ وہ اسماء اللہ تعالی کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں ان کو صفات مشترکہ بھی کہا جاتا ہے اور ان کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرآن وحدیث ،تعامل ِ امت یا عرف ِ عام میں ان اسماء سے غیر اللہ کا نام رکھنا ثابت ہو تو ایسا نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں،لہذا صورت مسئولہ میں "المقیت" بھی باری تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے ، اس کا ایک معنیٰ ہے حفاظت کرنے والا،گواہ ، اور دوسرا معنیٰ ہے قدرت رکھنے والا، دوسرے معنی کے اعتبار سے یہ لفظ اللہ تعالیٰ  کی خاص صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے،کسی اور کے لیے استعمال نہیں ہوتا ،اس لیے  احتیاط اسی میں ہے کہ مذکورہ نام "عبد"کے بغیرنہ رکھاجائے،البتہ اگر کسی نے رکھ لیا ہو تو بدلنا بھی ضروری نہیں۔

 اللہ تعالی کے کن ناموں کے ساتھ  "عبد " لگاکر نام رکھنا  ضروری ہے اور کن کے ساتھ  نہیں ؟ ان کی تفصیل درج ذیل ہیں :

"اللہ تبارک وتعالی کے وہ ذاتی یا صفاتی نام جس کے ساتھ " عبد ' لگانا ضروری ہے ،بغیر "عبد" کی اضافت کے بندوں کے لیے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں، وہ نام یہ ہیں: اللہ، الرحمن، الملك، القدوس، السلام، المھیمن، الجبار، المتکبر، الخالق، البارئ، المصور، الغفار، القھار، الرزاق، التواب، الوهاب، الخلاق، الفتاح، القیوم، الرب، المحیط، الغفور، الأحد، الصمد، الملیك، الحق، القادر، المحیی، الأول، الآخر، الباطن  وغیرہ۔

وہ اسماء جو اللہ کے صفات خاصہ میں سے نہیں ؛بلکہ وہ اسماء اللہ تعالی کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں ان کو صفات مشترکہ بھی کہا جاتا ہے اور ان کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرآن وحدیث ،تعامل ِ امت یا عرف ِ عام میں ان اسماء سے غیر اللہ کا نام رکھنا ثابت ہو تو ایسا نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلا:عزیز، علی، کریم، رحیم، عظیم، رشید، کبیر، بدیع، کفیل، هادی، واسع، حکیم  وغیرہ ۔

اور جن صفات ِ مشترکہ سے غیر اللہ کا نام رکھنا قرآن وحدیث اور مسلمانوں کے تعامل سے ثابت نہ ہو تو ان صفات پر غیر اللہ کا نام رکھنے سے پرہیز لازم ہے اور اگر استعمال کرنا ہے تو لفظ "عبد" کی اضافت کے ساتھ اس کو استعمال کیا جائے کیوں کہ اسماء حسنی میں اصل یہ ہے کہ ان سے غیر اللہ کا نام نہ رکھا جائے ۔"

(مستفاد از فتاوی عثمانی ،ج1،ص50،مکتبہ معارف القرآن )

معارف القرآن میں ہے:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز اور  گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا۔"

(ج4،ص132،مکتبہ معارف القرآن )

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وذكر غير واحد من العلماء ‌أن ‌هذه ‌الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز إطلاقه على غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار، والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين۔۔۔۔۔۔۔"

(سورۃ الاعراف،ج5،ص115،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية

قوله ‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل"

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج6،ص417،سعید)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب۔

وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیتہہ واحکامہا،ص125،دارالبیان)

الصحاح تاج اللغۃ میں ہے:

"المُقيتُ: المقتدر، كالذي يعطي كلَّ رجل قُوته.

(وكان الله على كل شئ مقيتا) ويقال المقيت: الحافظ للشئ والشاهد له. وأنشد ثعلب : ليت شعري وأشعرن إذا ما * قربوها منشورة ودعيت ألي الفضل أم علي إذا حو * سبت إني على الحساب مقيت أي أعرف ما عملت من السوء، لأن الإنسان على نفسه بصيرة."

(ج1،ص262،ط:دار العلم للملایین)

لسان العرب میں ہے:

"أنشد ابن الأعرابي:

وبما أستفيد، ثم أقيت المال، … إني امرؤ مقيت مفيد

وفي أسماء الله تعالى: المقيت، هو الحفيظ، وقيل: المقتدر، وقيل: هو الذي يعطي أقوات الخلائق؛ وهو من أقاته يقيته إذا أعطاه قوته. وأقاته أيضا: إذا حفظه. وفي التنزيل العزيز: وكان الله على كل شيء مقيتا

. الفراء: المقيت المقتدر والمقدر، كالذي يعطي كل شيء قوته. وقال الزجاج: المقيت القدير، وقيل: الحفيظ؛ قال: وهو بالحفيظ أشبه، لأنه مشتق من القوت. يقال: قت الرجل أقوته قوتا إذا حفظت نفسه بما يقوته. والقوت: اسم الشيء الذي يحفظ نفسه، ولا فضل فيه على قدر الحفظ، فمعنى المقيت: الحفيظ الذي يعطي الشيء قدر الحاجة، من الحفظ؛ وقال الفراء: المقيت المقتدر، كالذي يعطي كل رجل قوته. ويقال: المقيت الحافظ للشيء والشاهد له؛ وأنشد ثعلب للسموأل بن عادياء:

رب شتم سمعته وتصاممت، … وعي تركته. فكفيت

ليت شعري وأشعرن إذا ما … قربوها منشورة، ودعيت ألي الفضل أم علي، إذا

حوسبت؟ إني على الحساب مقيت

أي أعرف ما عملت من السوء، لأن الإنسان على نفسه بصيرة. حكى ابن بري عن أبي سعيد السيرافي، قال: الصحيح رواية من روى:

ربي على الحساب مقيت

قال: لأن الخاضع لربه لا يصف نفسه بهذه الصفة. قال ابن بري: الذي حمل السيرافي على تصحيح هذه الرواية، أنه بنى على أن مقيتا بمعنى مقتدر، ولو ذهب مذهب من يقول إنه الحافظ للشيء والشاهد له، كما ذكر الجوهري، لم ينكر الرواية الأولة. وقال أبو إسحاق الزجاج: إن المقيت بمعنى الحافظ والحفيظ، لأنه مشتق من القوت أي مأخوذ من قولهم: قت الرجل أقوته إذا حفظت نفسه بما يقوته. والقوت: اسم الشيء الذي يحفظ نفسه، قال: فمعنى المقيت على هذا: الحفيظ الذي يعطي الشيء على قدر الحاجة، من الحفظ؛ قال: وعلى هذا فسر قوله عز وجل: وكان الله على كل شيء مقيتا."

(فصل القاف:ج2،ص75،ط:دار صادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں