بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

مرحومین کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم


سوال

کیا ایک حصہ والد اور والدہ کے لیے کافی ہے یا علیحدہ سے دو حصے دینے ہیں یا سب مرحومین کے لیے ایک حصہ کافی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اپنی واجب قربانی کرنے کے بعد، اگر سائل کی گنجائش ہو تو والدین میں سے ہر ایک لیے الگ الگ حصہ  دینا زیادہ  فضیلت کا باعث ہوگا ، اور اگر گنجائش نہ ہو تو سب کی طرف سے  ایک حصہ  بھی ایصال ثواب کے لیے کافی ہے۔

مرحومین کی طرف سے  قربانی کی دو صورتیں ہیں:

۱) ان کے نام پر ہی حصہ خریدا  جائے اور ان ہی کی نیت سے ذبح کیا جائے۔

۲) نفلی قربانی کی نیت سے حصہ خریدا جائے اور ذبح کر کے ثواب ان کو پہنچایا جائے۔

دونوں صورتوں میں قربانی کا ثواب میت کوپہنچ جائے گا، اور دونوں صورتوں میں اس قربانی کا گوشت کھانا سب کے لیے جائز ہوگا۔

البتہ اگر میت نے اپنی طرف سے قربانی کی وصیت کی ہو اور میت کے مال سے ہی قربانی کی جائے تو اس کا گوشت صدقہ کرنا ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح.  قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لايأكل منها وإلا يأكل، بزازية، وسيذكره في النظم."

(کتاب الأضحیة ج :6، ص :326،ط: سعید)

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه."

(فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة، ج:3، ص:352، ط: رشیدیۃ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144612100229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں