بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بنک سے شراکت داری کے اصول پر گھر بنانے کے لیے قرص لینا


سوال

میزان بنک  سے شراکت داری کے اصول پر گھر بنانے کے  لیے قرض لینا چاہتا  ہوں، کیا اس طرح جائز ہے؟

جواب

ہماری تحقیق کے مطابق میزان بینک سمیت دیگر مروجہ اسلامی  بینکوں کے معاملات مکمل طور  پر شرعی اصولوں کے موافق نہیں ہیں، اس لیے میزان بینک سمیت دیگر موجودہ اسلامک بینکوں سےشراکت داری کے اصول پرگھر بنانے کے لیے قرضہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے؛  کیوں کہ  اس معاملے میں بہت سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔

عمومًا یہ بینک  گھر خریدنے کے خواہش مند افراد کے ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرتے ہیں ، اور اس معاملے میں بہت سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً ایک ہی معاملے میں  كئي عقود (بیع، شرکت اور اجارہ) کو جمع کرنا اور عملاً ایک عقد کو دوسرے عقد کے لیے شرط قرار دینا وغیرہ، یعنی کسی بھی بینک یا ادارے کے ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرنے کی صورت میں حقیقتا یا حکما دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد حقیقتاً یا حکمًا ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں، جب کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عقد کی تکمیل سے پہلے اس عقد میں دوسرا عقد داخل کرنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایک عقد کے لیے دوسرے عقد کو شرط قرار دینا بھی شرعًا ممنوع ہے ، اس  لیے یہ طریقہ بھی  شرعی اصولوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ناجائز   اور سودی قرضہ کا ایک ناجائز متبادل ہے۔

تفصیلی معلومات کے لیے ہماری کتاب ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔  خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح سودی قرضہ لے کر ذاتی گھر خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی بینک یا ادارے کے ساتھ  شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کر کے ذاتی گھر لینا بھی جائز نہیں ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

وعلى أن النهي عن أكل مال الغير معقود بصفة وهو أن يأكله بالباطل، وقد تضمن ذلك أكل أبدال العقود الفاسدة كأثمان البياعات الفاسدة۔

(باب التجارات وخیار البیع (3/128)،ط.دار إحياء التراث العربي - بيروت، تاريخ الطبع: 1405)

حدیث شریف میں ہے:

« إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعى يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه ألا ! وإن لكل ملك حمى ألا وإن حمى الله محارمه».

أخرجه مسلم في«باب أخذ الحلال وترك الشبهات» (5/ 50) برقم (4178)، ط. دار الجیل

ترجمہ: بے شک حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کر لیا ، اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے، قریب ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چرا گاہ میں گھس کر چرنے لگیں، جان لو ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام چیزوں ہیں۔

عمدة القاري ميں ہے:

وقال الخطابي كل شيء يشبه الحلال من وجه والحرام من وجه هو شبهة والحلال اليقين ما علم ملكه يقينا لنفسه والحرام البين ما علم ملكه لغيره يقينا والشبهة ما لايدري أهو له أو لغيره فالورع اجتنابه ثم الورع على أقسام واجب كالذي قلناه ومستحب كاجتناب معاملة من أكثر ماله حرام ومكروه كالاجتناب عن قبول رخص الله والهدايا۔

(«كتاب البیوع »«باب تفسير المشبهات» (11/236)،ط. دارالكتب العلمية. الطبعة الاولى: 1421ه)

فقط، والله أعلم


فتوی نمبر : 144209201981

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں