بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مصنوعی زیورات کی خرید و فروخت اور خواتین کے لیے پہننے کا حکم


سوال

مصنوعی زیورات کی خرید و فروخت اور عورت کے لیے تقاریب میں اس کے پہننے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

مصنوعی زیورات کی خرید و فروخت جائز ہے، انگوٹھی کے علاوہ باقی زیورات سونا چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں، کانچ، پلاسٹک، وغیرہ کے پہننا خواتین کے لیے جائز ہے، البتہ سونے یا چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی بنی  یا مصنوعی انگوٹھی پہننے  کی مرد و عورت کسی کو بھی شرعًا  اجازت نہیں ہے، لہٰذا سونا چاندی کے علاوہ دھات کی انگوٹھی کی بیع کراہت سے خالی نہیں ہوگی، ہاں خریدار کا مقصد اسے ڈھال کر پہننے کے علاوہ کسی صورت میں استعمال کرنا ہو تو کراہت نہیں ہوگی۔

الدر المختار و حاشية ابن العابدين ( رد المحتار ) میں ہے:

فَيَحْرُمُ (بِغَيْرِهَا كَحَجَرٍ) وَصَحَّحَ السَّرَخْسِيُّ.

(قَوْلُهُ: فَيَحْرُمُ بِغَيْرِهَا إلَخْ) لِمَا رَوَى الطَّحَاوِيُّ بِإِسْنَادِهِ إلَى عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ» ، وَرَوَى صَاحِبُ السُّنَنِ بِإِسْنَادِهِ إلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ: «أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ شَبَهٍ فَقَالَ لَهُ: مَالِي أَجِدُ مِنْك رِيحَ الْأَصْنَامِ فَطَرَحَهُ ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَ: مَالِي أَجِدُ عَلَيْك حِلْيَةَ أَهْلِ النَّارِ فَطَرَحَهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ أَتَّخِذُهُ؟ قَالَ: اتَّخِذْهُ مِنْ وَرِقٍ وَلَا تُتِمّهُ مِثْقَالًا» " فَعُلِمَ أَنَّ التَّخَتُّمَ بِالذَّهَبِ وَالْحَدِيدِ وَالصُّفْرِ حَرَامٌ فَأُلْحِقَ الْيَشْبُ بِذَلِكَ لِأَنَّهُ قَدْ يُتَّخَذُ مِنْهُ الْأَصْنَامُ، فَأَشْبَهَ الشَّبَهَ الَّذِي هُوَ مَنْصُوصٌ مَعْلُومٌ بِالنَّصِّ إتْقَانِيٌّ وَالشَّبَهُ مُحَرَّكًا النُّحَاسُ الْأَصْفَرُ قَامُوسٌ وَفِي الْجَوْهَرَةِ وَالتَّخَتُّمُ بِالْحَدِيدِ وَالصُّفْرِ وَالنُّحَاسِ وَالرَّصَاصِ مَكْرُوهٌ لِلرَّجُلِ وَالنِّسَاءِ.

( كتاب الحظر و الإباحة، فصل في اللبس، ۶ / ۳۵۹ - ۳۵۰، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں