مناسکِ حج کل کتنے اور کون کون سے ہیں؟
واضح رہے کہ مناسک کا اطلاق حج کے افعال اور حج کے وہ مقامات جہاں حج کے افعال ادا کیے جاتے ہیں، دونوں پر ہوتا ہے، چنانچہ صورتِ مسئولہ میں مناسکِ حج سے مراد اگر حج کے افعال ہوں تو چونکہ افعالِ حج فرائض، ارکان، واجبات، سنن و آداب پر مشتمل ہیں؛ اس لیے ذیل میں ہر ایک کو الگ الگ ذکر کیے جاتے ہیں، چنانچہ حج کے اصل فرائض کل تین ہیں:۔
1۔ احرام: یعنی دل سے حج کی نیت کرکے مکمل تلبیہ پڑھنا۔
2۔ وقوفِ عرفہ: یعنی نویں ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدانِ عرفات میں ٹھہرنا، خواہ کچھ ہی دیر کے لیے ٹھہرے۔ یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، چنانچہ اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا، تو اس کا حج ہی نہیں ہوگا، چاہے وہ دم ہی کیوں نہ دے دے۔
3۔ طوافِ زیارت: جوکہ وقوفِ عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے، جب تک حاجی طوافِ زیارت نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا اور یہ طواف اس کے ذمّہ باقی رہتا ہے اور بیوی بھی اس کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ اس طواف کا وجوبی وقت دسویں ذی الحجہ کے سورج طلوع ہونے سے لے کر بارہویں ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے تک ہے، وقتِ مقررہ کے دوران طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا تینوں فرائض میں سے اگر کوئی ایک چھوٹ جائے گی تو حج صحیح نہیں ہوگا اور اس کی تلافی دم یعنی قربانی وغیرہ سے بھی نہیں ہوسکتی، اور ان تینوں میں سے وقوفِ عرفہ اور طوافِ زیارت حج کے رکن بھی ہیں۔
واجباتِ حج: حج کے بلا واسطہ واجبات کل چھ ہیں:۔
1۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔
2۔ مزدلفہ میں وقوف کے وقت وقوف یعنی ٹھہرنا۔
3۔ رمی احجار یعنی جمروں پر کنکریاں مارنا۔
4۔حلق یا قصر یعنی سر کے بال منڈوانا یا کتروانا۔
5۔آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والے کا طوافِ وداع کرنا۔
6۔ قارن اور متمتع کے لیے قربانی کرنا۔
واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے تو حج تو ہوجائے گا، خواہ قصد اً چھوڑا ہو یا بھول کر، لیکن اس کی جزاء لازم ہوگی،البتہ اگر کوئی فعل کسی عذرِ شرعی کی وجہ سے چھوٹ گیا تو جزاء لازم نہیں ہوگی۔
سننِ حج: حج میں کئی سنتیں ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:۔
1۔ مفرد آفاقی اور قارن کو طوافِ قدوم کرنا۔
2۔ طوافِ قدوم میں رمل یعنی اکڑ کر چلنا، اگر طوافِ قدوم میں رمل نہ کیا ہو تو یا طوافِ فرض (یعنی طوافِ زیارت) یا طوافِ وداع میں رمل کرنا۔
3۔ میلین اخضرین یعنی دونوں سبز نشانوں کے درمیان سعی میں جلدی چلنا۔
4۔ امام کا تین مقامات پر خطبہ پڑھنا، (1)ساتویں ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں، (2)نویں ذی الحجہ کو عرفات میں، اور (3)گیارہویں کو منیٰ میں۔
5۔ نویں ذی الحجہ کی رات کو فجر تک منیٰ میں رہنا۔
6۔ نویں کی صبح سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات جانا۔
7۔ عرفات میں زمانۂ وقوف کی فضیلت کے لیے زوال کے بعد غسل کرنا۔
8۔ عرفات سے امام کے روانہ ہونے کے بعد نکلنا۔
9۔ عرفات سے واپس ہوتے ہوئے رات مزدلفہ میں گزارنا۔
10۔ سورج نکلنے سے ذرا پہلے مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ ہونا۔
11۔ ایامِ منیٰ کی راتوں کو (یعنی گیارہویں، بارہویں کی راتوں، اور اگر کوئی تیرہویں کی رمی کرنا چاہے تو تیرہویں کی رات میں بھی) منیٰ میں قیام کرنا۔
12۔ تینوں جمرات میں ترتیب قائم رکھنا۔
13۔ منیٰ سے واپسی پر وادئ ابطح یعنی محصب میں ٹھہرنا اگرچہ ایک لحظہ (ساعت) کے لیے ہی ہو۔
سنت کا حکم یہ ہے کہ ان کا کرنا باعثِ ثواب ہے اور قصداً چھوڑ نا برا ہے، جبکہ ان کے ترک یعنی چھوڑنے سے جزاء لازم نہیں ہوتی۔
البتہ اگر مناسکِ حج سے مراد مقاماتِ حج ہوں تو وہ کل پانچ ہیں: بیت اللہ یعنی مسجدِ حرام، صفا مروہ، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات۔
تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کیجیے:
(1) ”معلم الحجاج“، ص:94، ط:مکتبہ تھانوی۔
(2) ”عمدۃ الفقہ“، کتاب الحج، ج:4، ص:69، ط:زوار اکیڈمی۔
(3) کتاب ”مسائلِ رفعت قاسمی“، مسائلِ حج و عمرہ، ص:249، ط:حامد کتب خانہ کراچی۔
”لسان العرب“ میں ہے:
"فالمناسك جمع منسك ومنسك، بفتح السين وكسرها، وهو المتعبد ويقع على المصدر والزمان والمكان، ثم سميت أمور الحج كلها مناسك. والمنسك والمنسك: المذبح. وقد نسك ينسك نسكا إذا ذبح."
(حرف الکاف، فصل النون، ج:10، ص:499، ط:دار صادر بيروت)
”فتاویٰ عالمگیری“ میں ہے:
"(وأما شرائط صحة أدائه فثلاثة) الإحرام والمكان والزمان هكذا في السراج الوهاج. (وأما ركنه فشيئان) الوقوف بعرفة وطواف الزيارة لكن الوقوف أقوى من الطواف كذا في النهاية حتى يفسد الحج بالجماع قبل الوقوف، ولا يفسد بالجماع قبل طواف الزيارة كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان.
(وأما واجباته فخمسة) السعي بين الصفا والمروة والوقوف بمزدلفة ورمي الجمار والحلق أو التقصير، وطواف الصدر كذا في شرح الطحاوي.
(وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق."
(کتاب المناسک، الباب الأول، ج:1، ص:219، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال رحمه الله (وإذا رمى يوم النحر ذبح شاة أو بدنة أو سبعها) لقوله تعالى {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي} [البقرة: 196] والقران بمعنى التمتع على ما بينا..... قال رحمه الله (وصام العاجز عنه ثلاثة أيام آخرها يوم عرفة وسبعة إذا فرغ ولو بمكة) أي صام العاجز عن الهدي إلى آخره لقوله تعالى {فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجعتم تلك عشرة كاملة} [البقرة: 196] الآية، وهو، وإن نزل في التمتع فالقران بمعناه على ما بينا فيتناوله دلالة؛ لأن وجوبه على المتمتع لأجل شكر النعمة حيث وفق لأداء النسكين والقارن يشاركه فيه."
(كتاب الحج، باب القران، ج:2، ص:43، ط:المطبعة الكبرى الأميرية القاهرة)
”شرح ملا علی قاری علی لباب المناسک“ میں ہے:
"(فصل في سننه) أي سنن الحج (طواف القدوم ) أى على الصحيح خلافا لمن قال بوجوبه (للآفاقي) أي دون المكي ومن في معناه ( المفرد بالحج ) أي لا بالعمرة ( والقارن ) أي دون المتمتع فإنه في حكم المفرد بالعمرة أولا وفي حكم المكي بالحج ثانيا، و أما القارن فلكونه محر ما بهما يأتي بطواف العمرة وسعيها أولا ثم يأتي بطواف القدوم ويقدم سعى الحج أو يؤخره إلى ما بعد طواف الزيارة ( والابتداء من الحجر الأسود) أي على الأصح ومع هذا هو من سنن الطواف لا من سنن الحج (وخطبة الإمام في ثلاثة مواضع) الأول بمكة يوم السابع والثاني بعرفة يوم التاسع والثالث بمنى يوم الحادي عشر (والخروج من مكة إلى عرفة يوم التروية) أي بعد فجره حتى يصلى خمس صلوات في منى (والبيتوتة) أى كون أكثر الليل (بمنى ليلة عرفة) أي لا بمكة ولا بعرفات إلالحادث من الضرورات (والدفع منه) أي من منى بالتنوين وذكر باعتبار المكان والموضع ( إلى عرفة) أي متوجها إليها (بعد طلوع الشمس والغسل بعرفة) أي على خلاف أنه اليوم أو الوقوف وهو الأصح كالخلاف في غسل الجمعة هل هو لليوم أو للصلاة وكذا الغسل الإحرام من سنن الحج ولعله أخره ليذكره في محله (والبيتوتة بمزدلفة والدفع منها إلى منى قبل طلوع الشمس ) أي لمن وقف بها (والبيتوتة بمنى ليالى أيامه أي لمن اختار التأخر إلى يوم الرابع وإلا ففي ليلتين والمراد بالليالى هنا الآتية بعد أيامها لا الماضية قبلها (والنزول بالأبطح) أي بالحصب ولو ساعة (وهذه) أى هذه المذكورات هي المؤكدة) أي السنن المؤكدة (وهي) أي باعتبار جميعها (أكثرمما ذكر) أي هنا ( كما سيأتي إن شاء الله تعالى) أي بقيتها في أثناء أفعال الحج وأبوابها وقد ذكر في الصغير تسع عشرة سنة مؤكدة."
(باب فرائض الحج، فصل في سننه، ص:26)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610102116
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن