لڑکے اور لڑکی کے والدین نے اپنے درمیان مہر مقرر کیا، جب کہ لڑکا مقرر کردہ مہر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے قادر نہیں ہے، تو اگر لڑکا اور لڑکی آپس میں نکاح سے پہلے مہر کی اتنی مقدار مقرر کر لیں جس کے ادا کرنے پر لڑکا قادر ہو اور نکاح کے وقت گواہوں کے سامنے وہی مہر بیان کیا جائے جو والدین نے آپس میں طے کیا ہے، اور نکاح نامہ میں بھی وہی لکھ دیا جائے ، تو ان دونوں مہروں میں سے کون سا مہر شرعاً معتبر ہو گا کہ جس کا ادا کرنا شرعاً لڑکے پر لازم ہو گا؟
صورتِ مسئولہ میں نکاح کے موقع پر گواہوں کی موجودگی میں فریقین کے سامنے جو مہر مقرر کر دیا جائے گا، وہی معتبر ہو گا، اور اسی کی ادائیگی شوہر کے ذمے لازم ہو گی، البتہ نکاح کے بعد اگر میاں بیوی ضرورت محسوس کریں یا کوئی بھی عذر ہو تو باہمی رضامندی سے اُس وقت بھی مہر کی مقدار میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔
تاہم اتنا زیادہ مہر مقرر کرنا کہ جس کی ادائیگی مشکل ہو یا دکھلاوے یا عرف و رواج سے مجبور ہو کر زیادہ رکھا جائے تو یہ شرعًا و اخلاقًاپسندیدہ نہیں ہے،کیوں کہ شریعت نے مہر کے معاملہ میں سہولت و آسانی کا حکم دیا ہے، اور مہر کے متوسط و معتدل ہونے کو ازدواجی رشتے کی خیریت اور اس کی بقاء کا باعث قرار دیا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة."
(مشكاة المصابيح، کتاب النکاح، الفصل الثالث، رقم الحدیث:3097، ج:2، ص:930، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو ۔“
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے:
"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي."
(مشكاة المصابيح، کتاب النکاح، باب الصداق،الفصل الثاني، رقم الحدیث:3204، ج:2، ص:958،ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مہروں میں زیادتی مت کرو، کیوں کہ اگر یہ دنیا میں عزت کی بات یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو سب سے زیادہ اس کے مستحق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی بیوی کا اور اسی طرح کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا۔“
حدیث مبارک میں ہے:
" تياسروا في الصداق، فإن الرجل ليعطى المرأة حتى يبقى ذلك في نفسه عليها حسيكة."
(کنز العمال، حرف النون من قسم الأقوال وفيه كتاب النكاح، الباب الرابع، الفصل الثالث في الصداق، ج:16، ص:324، رقم الحدیث:44731، ط:مؤسسة الرسالة بیروت)
ترجمہ: ”یعنی مہر کے اندر آسانی اختیار کرو اس لیے کہ مرد عورت کو زیادہ مہر دے بیٹھتا ہے حتیٰ کہ اس دینے سے اس کے نفس کے اندر عورت کےلیے نفرت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔“
فتاوی شامی میں ہے:
"[مطلب في مهر السر ومهر العلانية]
"(قوله: المهر مهر السر إلخ) المسألة على وجهين: الأول تواضعا في السر على مهر ثم تعاقدا في العلانية بأكثر والجنس واحد، فإن اتفقا على المواضعة فالمهر مهر السر وإلا فالمسمى في العقد ما لم يبرهن الزوج على أن الزيادة سمعة، وإن اختلف الجنس فإن لم يتفقا على المواضعة فالمهر هو المسمى في العقد."
(كتاب النكاح، باب المهر، 161/3، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فإن كانت في قدر المهر بأن تواضعا في السر والباطن، واتفقا على أن يكون المهر ألف درهم لكنهما يظهران في العقد ألفين لأمر حملهما على ذلك، فإن لم يقولا: ألف منهما سمعة، فالمهر ما ذكراه في العلانية وذلك ألفان؛ لأن المهر ما يكون مذكورا في العقد والألفان مذكورتان في العقد فإذا لم يجعلا الألف منهما سمعة صحت تسمية الألفين وإن قالا الألف منهما سمعة، فالمهر ما ذكراه في السر وهو الألف في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة، وهو قول أبي يوسف ومحمد."
(ص:286، ج:2، کتاب النكاح، فصل المهر، ط:دار الکتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد، كما في البحر."
(کتاب النکاح، باب المھر، مطلب في حط المهر والإبراء منه، ج:3، ص:113، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100079
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن