بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں بوسیدہ رحل جلانا


سوال

مدرسے میں  بوسیدہ رحل کو جلانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ  مدرسہ کی وقف اشیاء کو ضائع کرنا درست نہیں ہے ،لہذا    رحل بوسیدہ ہوجائے تو  اس کی لکڑی  یا پلاسٹک  کو  اگر   کسی طرح مدرسہ  کی ایسی  ضروریات میں استعمال کرنا ممکن ہو  جس میں اس لکڑی یا پلاسٹک کی  بے احترامی نہ ہوتو  مدرسہ  کی ضروریات میں استعمال کرلیا جائے اور ایسا ممکن نہ ہو تو  اس لکڑی یا پلاسٹک  کو ایسے شخص کو   بیچ دیا جائے کہ جو اسے  کسی ناپاک یا ایسی جگہ میں استعمال نہ کرے کہ جس سے اس کے بے ادبی  ہو ،پھر اس کی رقم مدرسہ  کی ضروریات  میں استعمال   کرلی جائے، وقف  اشیاء کا تلف کرنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"[مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته]

(و صرف) الحاكم أو المتولي حاوي (نقضه) أو ثمنه إن تعذر إعادة عينه (إلى عمارته إن احتاج و إلا حفظه له ليحتاج) إلا إذا خاف ضياعه فيبيعه و يمسك ثمنه ليحتاج حاوي.

و في حاشيته لابن عابدين:

مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته (قوله: وفي فتاوى قارئ الهداية إلخ) حيث قال سئل عن وقف انهدم ولم يكن له شيء يعمر منه، ولا أمكن إجارته ولا تعميره، هل تباع أنقاضه من حجر وطوب وخشب؟ أجاب: إذا كان الأموال كذلك صح بيعه بأمر الحاكم، ويشترى بثمنه وقف مكانه فإذا لم يمكن رده إلى ورثة الواقف إن وجدوا ولا يصرف للفقراء. اهـ.

قلت: الظاهر أن البيع مبني على قول أبي يوسف، و الرد إلى الورثة أو إلى الفقراء على قول محمد، و هو جمع حسن حاصله أنه يعمل بقول أبي يوسف، حيث أمكن و إلا فبقول محمد تأمل."

 (رد المحتار4/ 376ط:سعید)

وفيه أيضًا:

"يجوز رمي براية القلم الجديد، و لاترمى براية القلم المستعمل لاحترامه كحشيش المسجد و كناسته لايلقى في موضع يخل بالتعظيم."

(رد المحتار1/ 178ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں