۱۔ سورۂ اعراف میں آیت نمبر ۱۶۳ سے ۱۶۶ تک جو واقعہ ذکر کِیا گیا ہے، اس میں جو تین گروہ کا ذکر قرآن میں ہوا جس میں سے پہلا گروہ جو مسلسل نا فرمانی پر کمر باندھے ہوئے تھا، دوسرا گروہ شروع میں انہیں سمجھا تا رہا جب وہ نہ مانے تو مایوس ہو کر بیٹھ گیااور تیسرا گروہ مایوس ہونے کے بجائے بدستور انہیں نصیحت کرتا رہا، پھر آگے آیت نمبر ۱۶۶ میں اللہ تعا لیٰ نے ارشاد فرمایا کہ”پھر جب یہ لوگ وہ بات بھلا بیٹھے جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو برائی سے روکنے والوں کو تو ہم نے بچا لیا اور جنہوں نے زیادتیاں کی تھیں ان کی مُسلسل نا فرمانی کی بنا پر ہم نے انہیں ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا "۔ اب سوال یہ ہے کہ دوسرے گروہ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ کیا ان کو بھی بچا لیا گیا یا اللہ کی ناراضگی دوسرے گروہ پر بھی آئی؟ میں نے ایک صاحب سے سنا ہے کہ دوسرے گروہ پر بھی عذاب آیا۔ ہماری اس بارے میں مکمل راہ نمائی فرما لیں ۔
۲ ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ میں نے ایک صاحب سے یہ حدیث سنی جس کا مفہوم یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد شخص تھا، وہ اپنی عبادت میں ہر وقت مشغول رہتا اور قوم والے نا فرمان تھے، جب نافرمانی پر اللہ کا عذاب آیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو عذاب کے لیے بھیجا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللّٰہ تعالی سے کہا کہ اس بستی میں تو عابد شخص بھی ہے جس نے کبھی نا فرمانی نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ساری بستی کو اسی شخص پر الٹا دو! خود نیک عمل کرتا اور قوم والوں کو نا فرمانی سے نہ روکتا تھا۔ اس کی تحقیق فرما کر ہماری راہ نمائی فرما لیں، اور اس کی تشریح بھی کر دیجیے گا۔
(۱): سورہ اعراف کی مذکورہ آیات (۱۶۳ - ۱۶۶) میں بنی اسرائیل کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے، اس کی ابتداء میں تین گروہوں کا تذکرہ ہے، یعنی ایک وہ گروہ جو نافرمانی کرنے لگا، دوسرا وہ گروہ جو مسلسل اس نافرمان گروہ کو وعظ ونصیحت کرتا رہا، اور تیسرا وہ گروہ جو کچھ عرصہ نافرمان گروہ کو وعظ ونصیحت کرنے اور ان کے اصرار علی المعصیت کو دیکھنے کے بعد مایوس ہوکر خاموش ہوگیا۔ پھر اس واقعہ کی انتہاء میں جب اس قوم کا انجام ذکر کیا گیا تو اس میں صرف پہلے اور دوسرے گروہ کا تذکرہ کیا گیا، تیسرے گروہ کے انجام سے سکوت اختیار کیا گیا ،چناں چہ اس تیسرے گروہ کے انجام کے بارے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں:
۱۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس گروہ کے انجام سے سکوت اختیار فرمایا اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ بتقاضائے ادب اس گروہ کے انجام پر سکوت اختیار کریں، اور اس کی جستجو میں نہ لگیں؛ کیوں کہ اگر اس کی ضرورت ہوتی یا اس میں ہمارا فائدہ ہوتا تو اللہ پاک ضرور اس کو بیان فرماتے، یہاں ہماری نصیحت کے لیے یہی کافی ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکم کو نہیں مانیں گے وہ عذابِ الہٰی کے مستحق ہوں گے، اور جو لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہیں گے، وہ نجات پائیں گے۔
۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ تیسرا گروہ بھی نجات پاگیا اور اس پر عذاب نہیں آیا؛ کیوں کہ انہوں نے وہ نافرمانی اور ظلم نہیں کیا جس کی بناء پر وہ مستحقِ عذاب ٹھہرتے۔
۳۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس ساکت گروہ پر بھی عذاب واقع ہوا، اور یہ بھی نافرمان گروہ کے ساتھ بندر اور خنزیر بنادیے گے۔
مذکورہ تینوں اقوال میں سے جمہور علمائے کرام کے نزدیک دوسرا قول راجح ہے کہ اس ساکت(خاموش رہنے والے) گروہ پر بھی عذاب واقع نہیں ہوا، اور یہ بھی نجات پاگئے۔
تاویلات اہل السنہ (تفسیر الماتریدی) میں ہے:
"وقوله - عز وجل -: (وإذ قالت أمة منهم لم تعظون قوما الله مهلكهم أو معذبهم عذابا شديدا …
وذكر في الأول أنهم كانوا ثلاث فرق: فريق عدوا، وتركوا أمر الله، وارتكبوا ما نهوا عنه. وفريق نهوا أولئك الذين اعتدوا وانتهكوا حرم الله. وفريق، قيل: لم يعتدوا، ولم يرتكبوا نهيه، ولا نهوا أولئك الذين اعتدوا، وهم الذين قالوا: (لم تعظون قوما. . .) الآية، وكذلك روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - قال: هم كانوا ثلاث فرق: فرقة وعظت، وفرقة موعوظة، وفرقة ثالثة، وهم الذين قالوا: (لم تعظون قوما الله مهلكهم). وهو ما ذكرنا أنه ذكرهم في الابتداء ثلاث فرق، وذكر في آخر الحال فرقتين: فرقة هي التي هلكت بالاعتداء، وفرقة هي التي نهت ونجت. ثم اختلف أهل التأويل في الفرقة الثالثة:
قال بعضهم: كانوا في الفرقة التي هلكت؛ لوجهين:
أحدهما: لما لم ينهوا أولئك الذين اعتدوا، وكان فرض عليهم النهي عن المنكر والأمر بالمعروف، فإذا لم ينهوا أولئك هلكوا وشركوا في العذاب؛ كقوله: (لولا ينهاهم الربانيون والأحبار عن قولهم الإثم. . .) الآية.
والثاني: كانوا معهم لما نهوا الناهين بقوله: (وإذ قالت أمة منهم لم تعظون قوما الله مهلكهم أو معذبهم).
وقال قائلون: كانوا في الناجين.
قال الحسن: لأنهم كانوا نهوا أولئك عن الاعتداء والظلم الذي كان منهم، وكان قولهم: (لم تعظون قوما) بعد ما نهوهم ووعظوهم فلم يتعظوا، فإنما قالوا لأولئك (لم تعظون قوما) بعد ما نهوا ووعظوا، فقالوا: كيف تعظون قوما لا يتعظون ولا ينتهون، فإنما قالوا ذلك بعد ما نهوا.
وقال قائلون: هذا القول منهم نهي؛ لأنهم أتوا بوعيد شديد بقولهم: (لم تعظون قوما الله مهلكهم أو معذبهم عذابا شديدا)، فنفس هذا القول منهم نهي وزجر عما ارتكبوا؛ حيث أتوا بالنهاية من الوعيد، وهو الهلاك والعذاب الشديد.
ولكنا لسنا نعلم أنهم كانوا في الهلكى أو في الناجين، وليس لنا إلى معرفة ذلك حاجة، ولو كان لنا حاجة إلى ذلك لبينه لنا - عز وجل - ولم يترك ذلك لآرائنا، سوى أنه بين من نجا منهم بالنهي عن الظلم والعدوان، وبين من أهلك وعذب بالظلم والعدوان بقوله: (أنجينا الذين ينهون عن السوء وأخذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون)".
(سورة الأعراف، ٥/ ٧٢، ط: دارالكتب العلمية)
تفسیر امام شافعی میں ہے:
"أحكام القرآن: ما يؤثر عنه - الشافعي - في التفسير في آيات متفرقة: أخبرنا أبو عبد الله الحافظ في كتاب (المستدرك) ، أخبرنا أبو العباس محمد ابن يعقوب، أخبرنا الربيع بن سليمان. أخبرنا الشافعي رحمه الله: أخبرني يحيى بن سليم، أخبرنا ابن جريج، عن عكرمة، قال: دخلت على ابن عباس رضي الله عنهما وهو يقرأ في المصحف - قبل أن يذهب بصره - وهو يبكي؛ فقلت ما يبكيك يا أبا عباس؟ جعلني الله فداك. فقال: هل تعرف (أيلة) ؟ قلت: وما (أيلة) ؟ قال: قرية كان بها ناس من اليهود، فحرم الله عليهم الحيتان يوم لسبت، فكانت حيتانهم تأتيهم يوم سبتهم شرعا - بيض سمان: كأمثال المخاض، بأفنياتهم وأبنياتهم، فإذا كان في غير يوم السبت لم يجدوها، ولم يدركوها إلا في مشقة ومؤنة شديدة، فقال بعضهم - أو من قال ذلك منهم -، لعلنا لو أخذناها يوم السبت، وأكلناها في غير يوم السبت، ففعل ذلك أهل بيت منهم: فأخذوا فشووا، فوجد جيرانهم ريح الشوي، فقالوا: والله ما نرى إلا أصاب بني فلان شيء، فأخذها آخرون، حتى فشا ذلك فيهم فكثر، فافترقوا فرقا ثلائا: فرقة: مملت. وفرقة: نهت. وفرقة قالت: (لم تعظون قوما الله مهلكهم أو معذبهم عذابا شديدا) الآية. فقالت الفرقة التي نهت: إنا نحذركم غضب الله وعقابه، أن يصيببهم الله بخسف، أو قذف، أو ببعض ما عنده من العذاب، والله لا نبايتكم في مكان، وأنتم فيه. قال: فخرجوا من البيوت فغدوا عليهم من الغد، فضربوا باب البيوت، فلم يجبهم أحد، فأتوا بسلم، فأسندوه إلى البيوت، ثم رقى منهم راق على السور، فقال: يا عباد الله قردة، والله لها أذناب، تعاوى ثلاث مرات، ثم نزل من السور ففتح البيوت، فدخل الناس عليهم، فعرفت القرود أنسابها من الإنس، ولم يعرف الإنس أنسابها من القرود. قال: يأتي القرد إلى نسيبه وقريبه من الإنس، فيحتك" به، ويلصق، ويقول الإنسان: أنت فلان؛ فيشير برأسه، أي: نعم، ويبكي. وتأتي القردة إلى نسيبها وقريبها من الإنس، فيقول لها الإنسان: أنت فلانة؟ فتشير برأسها، أي: نعم، وتبكي، فيقول لها الإنسان انا حذرناكم غضب الله وعقابه، أن يصيبكم بخسف، أو مسخ، أو ببعض ما عنده من العذاب.
قال ابن عباس رضي الله عنهما: واسمع، الله - عز وجل - يقول: فـ (أنجينا الذين ينهون عن السوء وأخذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون) الآية. فلا أدري ما فعلت الفرقة الثالثة. قال ابن عباس رضي الله عنهما: فكم قد رأينا من منكر، لم ننه عنه! قال عكرمة: ألا ترى (جعلني الله فداك) أنهم أنكروا وكرهوا، حين قالوا: (لم تعظون قوما الله مهلكهم أو معذبهم عذابا شديدا) ؟! الآية، فأعجبه قولي ذلك، وأمر لي ببردين غليظين، فكسانيهما".
(سورة الأعراف، ٢/ ٨٥٩، ط: دار التدمرية)
تفسیرمعارف القرآن کاندھلوی میں ہے:
"اس آیت میں حق جل شانہ نے ظالمین کے عذاب اور واعظین اور ناصحین کی نجات کا ذکر فرمایا مگر جو لوگ از اول تا آخر ساکت رہے حق تعالے نے ان کے ذکر سے سکوت فرمایا نہ ان کے عذاب کا ذکر کیا نہ ان کی نجات کا ذکر کیا اس لیے کہ جزاء جنس عمل سے ہوتی ہے یہ ساکتین کا گردہ نہ مستحق مدح کا ہوا کہ ان کی مدح کی جاتی اور نہ مرتکب نہی کا ہوا جو انکی مذمت کی جاتی ، اس لیے علماء نے اختلاف کیا کہ ساکتین کا گروه ناجین (نجات پانے والوں میں) رہا یا ہالکین اور معذبین میں رہا ۔ اس لیے ادب کا مقتضا یہ ہے کہ جس کے ذکر سے حق تعالیٰ نے سکوت کیا ہم بھی اس کے ذکر سے سکوت کریں ۔ ( دیکھو تفسیر ابن کثیر ص ۲۵ ج ۲) ۔۔۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں تین فرقے تھے ایک ظالمین اور فاسقین کا یعنی نافرمانوں کا دوسرا واعظین اور ناصحین کا اور تیسر ساکتین کا ، ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ جو فرقہ ساکت رہا اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ، عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ ہلاک نہیں ہوا ، کیوں کہ اس نے ان نافرمانوں کے فسق اور معصیت کو برا جانا اور ان کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے یہ کہا لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا الخ ابن عباسؓ کو عکر مہؓ کا یہ قول پسند آیا اور خوش ہو کر ان کو ایک خلعت پہنایا ، امام قرطبی فرماتے ہیں که وَ أَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُواسے اور وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِسے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف فرقہ عادیہ اور عاصیہ ہلاک ہوا ، باقی دو فرقے ہلاک نہیں ہوئے۔ واللہ اعلم (دیکھو تفسیر قرطبی ص ۳۰۷، ج ۷)"۔
(سورہ اعراف، ۳/ ۲۳۷، ط: مکتبہ المعارف)
بیان القرآن میں ہے:
"جب نصیحت کے موثر ہونے کی بالکل امید نہ ہو تو نصیحت کرنا واجب نہیں رہتا گوعالی ہمتی ہے پس قائلین لم تعظون نے بوجہ یاس کے عدم وجوب پر عمل کیا اور قائلین معذرة کو یا تو یاس نہیں ہوا یا عالی ہمتی کی شق کو اختیار کیا غرض دونوں مصیب تھے اور دونوں کی نجات پانے کا حضرت عکرمہ نے استنباط کیا اور ابن عباس نے پسند کرکے ان کو انعام بھی دیا۔"
(سورہ اعراف، ۱/ ۴۶۰، ط: قدیمی کتب خانہ)
(۲): سوال میں مذکور روایت دو سندوں کے ساتھ مروی ہے، ایک سند میں دو راویوں(عبید بن اسحاق العطار اور عمار بن سیف) پر ائمہ جرح وتعدیل نے کلام کرکے ضعیف قرار دیا ہے، البتہ ایک سند جس میں ”مالک بن دینار“ ہے، اس کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ”شعب الایمان“ میں محفوظ اور درست کہا ہے۔
اس روایت کی تشریح میں علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر شخص پر اپنی وسعت اور طاقتِ ایمانی کی بقدر فرض ہے؛ کیوں کہ روایت میں ذکر کیے گئے عابد شخص کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں کو منکرات سے بچانے کی کوشش نہیں کی، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے لیے ان سے نفرت رکھی، جس کی وجہ سے اس کو عذاب ملا۔
ذیل میں مذکورہ روایت، ”معجمِ طبرانی“ اور ”شعب الایمان“ کے حوالہ سے کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے۔
المعجم الأوسط للطبراني میں ہے:
"حدثنا محمد بن موسى الإصطخري، ثنا أبو أسامة عبد الله بن أسامة الكلبي، نا عبيد بن إسحاق العطار، ثنا عمار بن سيف، عن الأعمش، عن أبي سفيان، عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أوحى الله إلى ملك من الملائكة أن أقلب مدينة كذا وكذا على أهلها قال: إن فيه عبدك فلانا لم يعصك طرفة عين قال: أقلبها عليه وعليهم؛ فإن وجهه لم يتمعر لي ساعة قط." لم يرو هذا الحديث عن الأعمش إلا عمار بن سيف، تفرد به: عبيد بن إسحاق العطار".
(باب الميم، ٧/ ٣٣٦، ط: دار الحرمين)
شعب الإيمان میں ہے:
"أخبرنا أبو عبد الله الحافظ وأبو محمد بن المقرئ في لا: حدثنا أبو العباس الأصم، حدثنا الخضر بن أبان، حدثنا سيار، حدثنا جعفر، عن مالك قال: إن الله عز وجل أمر بقرية أن تعذب، فضجت الملائكة قالت: إن فيهم عبدك فلانا، قال: أسمعوني ضجيجه فإن وجهه لم يتمعر غضبًا لمحارمي.
هذا هو المحفوظ من قول مالك بن دينار وقد روي من وجه آخر ضعيف مرفوعًا".
(كتاب الجهاد، الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ١٠/ ٧٤، ط: مكتبة الرشد)
المغني عن حمل الأسفار میں ہے:
"أخرجه الطبراني في الأوسط والبيهقي في الشعب وضعفه، وقال: المحفوظ من قول مالك بن دينار".
(كتاب الأمر بالمعروف، الباب الأول: في وجوب الأمر بالمعروف، ص: ٧٨٦، ط: دار ابن حزم)
مجمع الزوائد میں ہے:
"رواه الطبراني في الأوسط من رواية عبيد بن إسحاق العطار عن عمار بن سيف، وكلاهما ضعيف، ووثق عمار بن سيف ابن المبارك وجماعة، ورضي أبو حاتم عبيد بن إسحاق".
(كتاب الفتن، باب فيمن لم يغضب لله، ٧/ ٢٧٠، ط: مكتبة القدسي)
الكنز الأكبر میں ہے:
"فالمعنى: إن هذا كان رجلا متعبدا وعمل على نفسه ولم يلتفت إلى غيره، بل اشتغل فيما هو فيه، ولم يأمر بمعروف ولم ينه عن منكر، فخسف به أولا، فمن لم يغضب لله، ولم يتمعر وجهه إذا انتهكت حرمات الله لحقه الإثم وحق عليه العذاب. فعلى كل واحد من الناس الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر على حسب حاله لا ينبغي أن يسعه السكوت عن ذلك البتة".
(الباب الأول: في فضل الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، فصل: في إنكار المنكر أجر عظيم، ص: ١٤٥، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606102679
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن