معلوم کرنا تھا، ایک غیر مقلد عورت بیان کر رہی ہے، جس میں ہمارے گھر کی بھی عورتیں جا رہی ہیں، جس میں بتایا جا رہا ہے کہ بخاری میں حدیث ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح سجدہ کریں گی۔ وہ حدیث کا حوالہ دے رہی ہے۔ تو کیا اس طرح سجدہ کرنا صحیح ہے یا غلط؟ اگر غلط ہے تو صحیح طریقہ بتائیں اور حدیث کا حوالہ دیں۔
واضح رہے کہ عورتوں کی نماز کا طریقہ مردوں کے طریقۂ نماز سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثارِ صحابہ و تابعین سے ثابت ہے اور آج تک کسی صحابی ، تابعی ، تبعِ تابعی یا فقہاءِ امت میں سے کسی کا ایسا فتویٰ نظر نہیں آیا ، جس میں عورتوں کے سجدہ کو مردوں کے سجدہ کے مطابق قرار دیا گیا ہو ،بلکہ عورتوں کو سجدہ کرنے میں مردوں سے مخالفت کاحکم دیا گیا ہےکہ اس کے تمام اعضا ملے ہوئے ہوں، ہاتھ بغلوں سے ،رانیں پیٹ سے ملی ہوئی ہوں۔
مرد و عورت کے سجدہ میں فرق ذیل کی روایات میں مذکور ہے:
مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:
"حدثنا أبو بكر قال : نا أبو الأحوص ، عن مغيرة ، عن إبراهيم ، قال : «إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها ، و لتضع بطنها عليهما»"
(کتاب الصلاة، المرأة كيف تكون في سجودها؟، ج:1، ص: 242، ط: دار التاج - لبنان)
"ترجمہ : ابراہیم سے روایت ہے انہوں نے فرمایا ! عورت جب سجدہ کرے تو اسے چاہیۓ کہ اپنے رانوں کو ملائے اور پیٹ کو اس کے اوپر رکھے ۔"
و فيه ايضاً :
"حدثنا أبو بكر قال : نا وكيع ، عن سفيان ، عن منصور ، عن إبراهيم ، قال : «إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ، و لا ترفع عجيزتها ، و لا تجافي كما يجافي الرجل»"
(کتاب الصلاة، المرأة كيف تكون في سجودها؟، ج: 1، ص: 242، ط: دار التاج - لبنان)
"ترجمہ : ابراہیم سے روایت ہے انہوں نے فرمایا ! جب عورت سجدہ کرے تو اسے چاہیۓ کہ اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چمٹائے اور اپنی سر ین کو نہ اٹھائے اور اپنے بازؤوں کو کھلا نہ ر کھے جیسا کہ مرد رکھتا ہے ۔"
السنن الكبرى للبيهقي میں ہے:
"عن يزيد بن أبي حبيب ، أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مر على امرأتين تصليان فقال : "إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل."
(کتاب الصلاة، باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود، ج: 2، ص: 315، ط: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان)
"ترجمہ : یزید بن حبیب سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ دو ایسی عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں تو حضور ﷺ نے فرمایا :جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصے زمین سے ملائے رکھو ، کیونکہ سجدہ ( کے معاملہ) میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے ۔"
و فيه ایضاً :
" عن الحارث قال : قال علي رضي الله عنه "إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها."
(کتاب الصلاة، باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود، ج: 2، ص: 314، ط: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان)
"ترجمہ : حارث ، حضرت علی سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو اسے چاہیۓ کہ وہ سکڑے اور اپنی رانوں کو ملائے رکھے ۔"
السنن الكبرى للبيهقي میں ہے:
"عن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : "إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذها على فخذها الأخرى، و إذا سجدت ألصقت بطنها في فخذيها كأستر ما يكون لها، و إن الله تعالى ينظر إليها و يقول: يا ملائكتي أشهدكم أني قد غفرت لها."
(کتاب الصلاة، باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود، ج: 2، ص: 314، ط: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان)
"ترجمہ : حضرت ابن عمر سے مرفوع روایت ہے کہ جب عورت نماز میں بیٹھ جائے تو اپنی ایک ران پر دوسری ران رکھے ، پس جب وہ سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کواپنی ران کیساتھ ملائے جتناوہ چھپ سکے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ کر ( اپنے فرشتوں سے) فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتوں ! میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کوبخش دیا ہے۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100225
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن