بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی شخص کا زندگی میں دکان کے کرایہ کا ایک تہائی یا دکان کی زمین کی ایک تہائی کی وصیت کرنا


سوال

میر ی ایک دکان ہے جس کا کرایہ 80000    آتا ہے ، میں یہ چاہتا  ہوں  کہ میری وفات کے بعد جب تک ورثاء  اس دکان کو تقسیم نہ کریں تو اس کرایہ کا ،تہائی حصہ مسجد کے لئے وقف ہو،  باقی ورثا  ءشریعت کے مطابق لیتے رہیں ،اور جب ورثا ءدکان کو تقسیم کریں تو  دکان کا، تہائی حصہ  مسجد میں وقف کے طور پر چلاجائے تاکہ ہم میاں بیوی کو ثواب ملتا رہے ،کیا اس طرح کرنا درست ہے ؟

 

جواب

صورت مسئولہ میں سائل  کا یہ کہنا کہ اس کی وفات کے بعد جب تک ورثاء اس دکان کو تقسیم نہ کریں ،تو اس کے   کرایہ کا ایک تہائی حصہ مسجد  میں دینا،  دکان کی تقسیم کے بعد دکان کی  ایک تہائی  مسجد  میں وقف کرنا  ،تو یہ ایک درست بلکہ ایک مستحسن عمل ہے،اور اس عمل کی وجہ سے میاں بیوی دونوں کوثواب  ملتا رہے گا،لہذا  ایسا کرنے کی صورت میں دکان کی تقسیم سے پہلےہر مہینہ  دکان کے کرایہ کا ایک تہائی مسجد میں صرف ہوگا ، اور باقی کرایہ ورثاءکے درمیان  ان کے  حصص کے مطابق تقسیم ہوگا ، بعد میں جب دکان تقسیم کی جائے گی، تو ورثاء کے ذمہ اس کا ایک تہائی حصہ مسجد کے لیے بطور وقف کے دینا لازم ہو  گا، جبکہ باقی حصص ورثاء کے درمیان شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ‌ولا ‌تجوز ‌بما ‌زاد ‌على ‌الثلث ‌إلا ‌أن ‌يجيزه ‌الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."

(كتاب الوصايا، الباب الأول،ج:6،ص:90، ط: دار الفكر)

 الموسوعة الفقهية میں ہے :

"الوصية للأجنبي بما زاد عن الثلث  اختلف الفقهاء في الوصية بالزائد على الثلث للأجنبي على قولين :القول الأول : إن الوصية للأجنبي في القدر الزائد على الثلث تصح وتنعقد ، ولكنها تكون موقوفة على إجازة الورثة ، فإن لم يكن له ورثة نفذت دون حاجة إلى إجازة أحد ، وهذا هو مذهب الحنفية."

(حرف العين، عقد، عقد موقوف، الوصية للأجنبي بما زاد عن الثلث،ج: 30،ص: 254، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"وتجوز بالثلث للاجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته (وهم كبار) يعني يعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية، على عكس إقرار المريض للوارث (وندبت بأقل منه) ولو (عند غني ورثته أو استغنائهم بحصتهم كتركها) أي كما ندب تركها (بلا أحدهما) أي غنى واستغناء لانه حينئذ صلة وصدقة (وتؤخر عن الدين)

(قوله عند عدم المانع) أي من قتل أو حرابة أو استغراق بالدين أو نحو ذلك (قوله لا الزيادة عليه إلخ) فإذا أوصى بما زاد على الثلث ولم يكن إلا وارث يرد عليه وأجازها، فالبقية له وإن أجاز من لا يرد عليه ففرضه في البقية، وباقيها لبيت المال."

(کتاب الوصایا،ج:6،ص: 650،ط:ایچ ایم سعید )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144609101662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں