بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مہر مؤجل طلاق کے ساتھ خاص ہے ؟


سوال

مہرموجل طلاق کے ساتھ خاص ہے یا نہیں؟  ہمارے علاقے میں رواج ہے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے تب مہر ادا کرتے ہیں،  اگرطلاق کی نوبت نہ آئے تو مہرعورت کو نہیں  دیتے اور ایک عالم کہتےہیں  کہ یہ ہمارے علاقے کا عرف  ہے،  کیاایسےعمل کو عرف کہنا  درست  ہے  اورکیایہ رواج شریعت کے مطابق ہے؟

جواب

مہر کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک معجل اور دوسرا مؤجل، معجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کا ادا کرنا نکاح کے فوری بعد ذمہ میں واجب ہوجاتا ہے اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل  ہوتا ہے، جب کہ مؤجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوری واجب نہ ہو، بلکہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص میعاد (وقت) مقرر کی گئی ہو یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو،  اگر کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اس مہر کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا، اور اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو بیوی جب بھی مطالبہ کرے گی اس وقت شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوجائے گا، لیکن   اگر مہر مؤجل کے لیے نہ تو کوئی خاص میعاد رکھی گئی ہو یا نہ ہی بیوی کے مطالبہ کو میعاد بنایا گیا ہو تو پھر اس صورت میں اس کی ادائیگی طلاق یا موت کی وجہ سے فرقت کے وقت لازم ہوگی،  لہذا مہر مؤجل صرف طلاق کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس میں وہی تفصیل ہے جو ماقبل میں ذکر ہوئی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن بينوا قدر المعجل يعجل ذلك، وإن لم يبينوا شيئاً ينظر إلى المرأة وإلى المهر المذكور في العقد أنه كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر فيجعل ذلك معجلاً ولايقدر بالربع ولا بالخمس وإنما ينظر إلى المتعارف، وإن شرطوا في العقد تعجيل كل المهر يجعل الكل معجلاً ويترك العرف، كذا في فتاوى قاضي خان ... ولو قال: نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم: لايجوز الأجل ويجب حالاً، وقال بعضهم: يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق، وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع.  لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه، قال بعضهم: يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لايتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة".

(كتاب النكاح، الفصل الحادي عشر، 1/ 318، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں