میرے بیٹے کی شادی کو چار مہینے ہو گئے ہیں،میری بہوکے میاں بیوی والے تعلقات قائم کرنے سے انکار کرنے کی وجہ سے دونوں کے درمیان میاں بیوی والے تعلقات قائم نہیں ہوئےہیں، البتہ تنہائی میں صرف ہاتھ لگایا ہے۔
اس وجہ سے ہم طلاق دینا چاہتے ہیں،توکیا اس صورت میں طےشدہ حق مہر دینا ضروری ہے؟ اور کیا اس صورت میں لڑکی پر عدت گزارنا ضروری ہے؟
صورت مسئولہ میں چونکہ میاں بیوی کے درمیان نکاح کے بعد رخصتی اور خلوت ہو چکی ہے، اس لیے اگر سائل کا بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو طے شدہ پورا مہر دینا لازم ہوگا اور عورت کو ماہواری آتی ہو تو تین ماہواریاں مکمل عدت گزارنی لازم ہوگی ۔
واضح رہے کہ انتہائی مجبوری کی حالت میں طلاق دینے کی گنجائش ہوتی ہے ،انتہائی مجبوری کی حالت میں جب عورت پاکی کی حالت میں ہو تب طلاق دے دی جائے،نیزبیک وقت تین طلاق نہ دی جائے ایسا کرنا گناہ ہے، پس ایک طلاق دی جائےاور رجوع نہ کیا جائے، پھر جب عدت( تین حیض)گزر جائیں تو اس سے نکاح ٹوٹ جائے گا اور عدت بھی پوری ہو جائے گی، یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے اور اس میں آسانی بھی ہے کہ کبھی بھی دونوں میں مصالحت کا جذبہ بنےتو اس کا آسان راستہ باقی رہتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."
(کتاب النکاح، الباب السابع في المھر، الفصل الثاني فیما یتأکد به المھروالمتعة، ج: 1، ص: 303، ط: دارالفکر)
وفیہ ایضا:
"رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدۃ، ج: 1، ص: 526، ط:دارالفکر)
النتف فی الفتاوی میں ہے:
"حد الدخول :واما الدخول فحكمه اذا اغلق باب او ارخى ستر او خلا بها بقدر ما يمكنه وطؤها ولم يكن بينهما سبب مانع من الوطء،حكم الدخول: فان ذلك يوجب المهر كاملا والعدة وطئها او لم يطأها اذا كان النكاح صحيحا."
(کتاب النکاح، ج: 1، ص: 298، ط:دارالفرقان عمان)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء."
(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدۃ، ج: 1، ص: 526، ط: دارالفکر)
وفیہ ایضا:
"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها."
(کتاب الطلاق، ج: 1، ص: 348، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن