بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت کے بعد یاد آیا کہ اذان نہیں دی، اب اذان کے بعد اقامت لوٹانے کا حکم


سوال

 ہمارے محلہ کی مسجد میں اقامت کرنے کے بعد  مقتدی کو یاد آیا کہ  اذان نہیں ہوئی ہے،  اقامت کے بعد  اذان دی تو پوچھنا یہ ہے کہ اقامت دوبارہ کرنا لازم ہے یا نہیں؟

جواب

اقامت کا لوٹانا مشروع نہیں ہے؛  لہذا بہت زیادہ کلام یا ایسا عملِ کثیر کرنا  جس سے مجلس تبدیل ہوجائے، ان دو صورتوں کے علاوہ اقامت نہیں لوٹائی  جاتی۔

صورتِ  مسئولہ  میں اگر اذان مسجد  ہی  میں دی تو مجلس  ایک ہی ہونے کی وجہ سے اقامت نہیں لوٹائی جائے گی، البتہ اگر اذان دینے  کی جگہ مسجد  سے باہر ہو تو مجلس تبدیل ہونے کی وجہ سے اقامت لوٹائی  جائے  گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 400):

"(قوله: وينبغي إلخ) البحث لصاحب النهر.

أقول: قال في آخر شرح المنية: أقام المؤذن و لم يصل الإمام ركعتي الفجر يصليهما و لاتعاد الإقامة؛ لأن تكرارها غير مشروع إذا لم يقطعها قاطع من كلام كثير أو عمل كثير مما يقطع المجلس في سجدة التلاوة اهـ"

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 114):

"الأصل أنه لايتكرر الوجوب إلا بأحد أمور ثلاثة: اختلاف التلاوة أو السماع أو المجلس.

أما الأولان: فالمراد بهما اختلاف المتلو و المسموع حتى لو تلا سجدات القرآن كلها أو سمعها في مجلس أو مجالس وجبت كلها.

و أما الأخير فهو قسمان: حقيقي بالانتقال منه إلى آخر بأكثر من خطوتين كما في كثير من الكتب، أو بأكثر من ثلاث كما في المحيط ما لم يكن للمكانين حكم الواحد، كالمسجد و البيت و السفينة و لو جارية، و الصحراء بالنسبة للتالي في الصلاة راكبًا. وحكمي و ذلك بمباشرة عمل يعد في العرف قطعًا لما قبله كما لو تلا ثم أكل كثيرًا أو نام مضطجعًا أو أرضعت ولدها أو أخذ في بيع أو شراء أو نكاح، بخلاف ما إذا طال جلوسه أو قراءته أو سبح أو هلل أو أكل لقمةً أو شرب شربةً أو نام قاعدًا أو كان جالسًا فقام أو مشى خطوتين أو ثلاثًا على الخلاف أو كان قائمًا فقعد أو نازلًا فركب في مكانه فلاتتكرر، حلية ملخصًا."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں