بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

امام تکبیراتِ انتقال کیسے کرے گا؟


سوال

امام تکبیراتِ انتقال کب اور کیسے کہے گا؟

جواب

تکبیراتِ انتقال کے سلسلے میں سنت یہ ہے کہ دورانِ انتقال ہی تکبیر مکمل کرلی جائے، اس طرح کہ ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال شروع کرتے ہوئے تکبیر یا تسمیع وغیرہ بھی شروع کردی جائے اور انتقال کے اختتام کے ساتھ ساتھ تکبیریاتسمیع وغیرہ بھی مکمل کرلی جائے۔ انتقال مکمل ہونے کے بعد اگلے رکن میں تکبیرات ادا کرنے کو فقہائے کرام نے مکروہ لکھا ہے، اس میں امام ومقتدی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ویکبر مع الانحطاط، کذا في ”الهدایة“ قال الطحاوي: وهو الصحیح کذا في ”معراج الدرایة“ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط."

(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:74، ط: دار الفكر بيروت)

منیۃ المصلی میں ہے:

"فلما فرغ من القراءة يَخرُّ راكعاً مُكبّراً، وينبغي أن يكون ابتداء تكبيره عند أول الخرور، ويكون الفراغ عند الاستواء، وبعضهم قالوا : إذا أتم القراءة حالة الخرور فلا بأس به، بعد أن يكون ما بقي من القراءة حرفاً أو كلمة والأول أصح."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ص:194، ط:دارالقلم دمشق)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

”رکوع اور سجدے کی تکبیرات کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ رکوع میں جاتے وقت تکبیر بھی ساتھ ساتھ شروع کردے اور ساتھ ساتھ ختم کر ے۔ اسی طرح سجدہ میں جاتے وقت بھی تکبیر ساتھ ساتھ شروع کرے اور ساتھ ہی ختم کرے ۔ رکوع و سجدہ میں پہنچنے کے بعد تکبیر کہنا سنت کے خلاف ہے اور اس میں دو کراہتیں   بھی لازم آتی ہیں ۔ ایک کراہت تکبیر کے وقت کو ضائع کرنے   کی اور دوسری کراہت بے وقت تکبیر کہنے کی ۔ کیونکہ یہ وقت رکوع و سجدے کی تسبیح پڑھنے کا ہے تکبیر کہنے کا نہیں۔“

(کتاب الصلوۃ، ج:5، ص:23، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں