امام نے فرض نماز میں" قل اعوذب رب الناس" تلاوت کی لیکن اس میں"الھ الناس" بھول گیا ،پیچھے سے مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے لے لیا ،کیا سجدہ سہو ضروری ہے؟
واضح رہے کہ امام کے بھول جانے کی صورت میں لقمہ دینے میں جلدی کرنا مکروہ ہے، ہو سکتا ہے کہ امام کو خود یاد آجائے اور وہ قراءت درست کر لے اس لیے امام کو موقع دینا چاہیے،اور امام کو بھی چاہیے کہ اگر وہ اتنی قراءت کر چکا ہے کہ جس سے نماز جائز ہو جاتی ہے تو بھول جانے کی صورت میں مقتدیوں کو لقمہ دینے پر مجبور نہ کرے بلکہ رکوع کر لیا کرے۔
تاہم نماز میں امام کے بھول جانے کی صورت میں مقتدی کے لیےاپنے امام کو لقمہ دینا جائز ہے، اس سےنماز فاسد نہیں ہوتی اور نہ ہی امام پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے، لہذا امام پر سجدہ سہو کرنا ضروری نہیں۔
الفتاوى الهندية (1/ 99)
''والصحيح أن ينوي الفتح على إمامه دون القراءة، قالوا: هذا إذا أرتج عليه قبل أن يقرأ قدر ما تجوز به الصلاة، أو بعدما قرأ ولم يتحول إلى آية أخرى، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح عليه تفسد صلاة الفاتح، والصحيح أنها لا تفسد صلاة الفاتح بكل حال ولا صلاة الإمام لو أخذ منه على الصحيح. هكذا في الكافي.
ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته ؛ لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئاً خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي. ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح ؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه وإنه مكروه، بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة، وإلا ينتقل إلى آية أخرى. كذا في الكافي. وتفسير الإلجاء: أن يردد الآية أو يقف ساكتاً. كذا في النهاية''.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101734
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن