آج کل بہت سے ادارے خواہ دینی ہوں یا دنیاوی اجتماعی قربانی کرتے ہیں، ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ایک مقرر رقم مثلا 35 ہزار روپے قربانی کا حصہ لینے والوں سے وصول کی جاتی ہے اور تمام اخراجات جانور کی خریداری کٹائی کام کرنے والوں کی مزدوری وغیرہ اجتماعی قربانی کرنے والے ادارے کے ذمہ ہوتا ہے، دیکھا جائے تو تمام اخراجات منہا کرنے کے بعد بھی فی جانور کافی پیسے بچ جاتے ہیں ،اب یہ پیسے اجتماعی قربانی والوں کے لیے استعمال کرنا کیسا ہے؟
اجتماعی قربانی میں قربانی کر نے کے بعد رقم بچنے کی صورت میں بقیہ رقم واپس کرنا لازم ہے، زائد رقم شرکاء کی اجازت کے بغیر اجتماعی قربانی کر نے والی انتظامیہ کے لیے رکھنا اوراس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی سے باقی بچ جانے والی رقم ادارہ کو عطیہ کردیں تو اس صورت میں یہ رقم لینا درست ہوگا ۔اجتماعی قربانی کی انتظامیہ اجرت کے طور پر کچھ لینا چاہے تو ابتداہی سے متعین کر کے لے سکتے ہیں بعد میں لینا جائز نہیں ہوگا ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنه."
(کتاب الغصب، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر،200/6،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102286
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن