ہم اجتماعی اور وقف قربانی کرتے ہیں ،ہم لوگوں کی طرف سے نمائندہ بن کرمذبح خانہ میں( ہاتھ سے ذبح کرواتے ہیں پھرکٹائی کے لیےمشین میں ڈالتے ہیں )قربانی کرواتے ہیں،اب بہت سے لوگوں کوہمیں گوشت دیناہوتاہے،کیوں کہ جب وہ اجتماعی قربانی میں شرکت کرتے ہیں ،توکہتے ہیں کہ ہمیں گوشت چاہیے،اور مشینری میں تمام جانوروں کا گوشت کٹائی کے بعدمل جاتاہے،الگ کرناممکن نہیں ،توہمیں جن جن کوگوشت دیناہوتاہے،ان کاکل حساب لگاکراتناگوشت اس کٹائی کے بعدجمع ہونے والے گوشت سے دے دیتے ہیں ،اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح گوشت جوکہ ایک ساتھ ہوجاتاہے ،اس میں سے جس کولیناہوتاہے،اس کانکال سکتے ہیں؟یااس کوالگ کرنے کی کوئی صورت بتائیے،کیوں کہ تمام گوشت مل جاتاہے،جس میں اجتماعی قربانی کابھی ہوتاہےاور وقف کابھی ۔
واضح رہے کہ اجتماعی قربانی میں ہر جانور کو ذبح کرنے سے قبل اس میں شریک تمام شرکاء کی تعیین ضروری ہے۔ ہر حصہ دار کو اس کے مخصوص جانور کا حصہ دیا جائے، اور ایک جانور کے شریک کا گوشت دوسرے شریک کو دینا جائز نہیں۔اسی طرح جس گائے میں جو افراد شریک ہوں، اس گائے کا گوشت صرف ان ہی حصہ داروں کے درمیان تقسیم کرنا شرعاً ضروری ہے۔ ایک گائے کے متعین حصہ داروں کے علاوہ دوسری گائے کے شرکاء کو اس گائے کا گوشت دینا جائز نہیں، کیونکہ ہر گائے کے متعین حصہ دار اپنے اپنے حصے کے مالک ہوتے ہیں، اور مالک کی اجازت کے بغیر اس کا گوشت کسی اور کو دینا (خواہ وزن کر کے دیا جائے، یا بغیر وزن کے) شرعاً جائز نہیں،اسی طرح تمام گائے کا وزن برابرنہیں ہوتا،اگرچہ قیمت ایک ہی کیوں نہ ہو،پھربھی کمی بیشی کااحتمال ہوتاہے،گوشت کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے،اور گوشت اموال ربویہ میں سے ہے،اورمعاملہ رباء میں شبہ رباءبھی رباہوتاہے۔
لہٰذا، صورتِ مسئولہ میں گوشت کی تقسیم کا جو طریقہ رائج ہے، وہ درست نہیں۔ اولاً: اس میں گوشت کو اندازے سے دیا جاتا ہے؛ دوم: ایک جانور میں شریک کو دوسرے جانور کے گوشت سے دیا جاتا ہے، سوم: ہر شریک اپنے حصے کا مالک ہوتا ہے، اور کسی کے حصے کو بدلنا بھی جائز نہیں۔
اس کو درست کرنے کی ترتیب یہ ہے کہ حصہ لینے والوں کے جانوروں کے گوشت الگ الگ بنوائے جائیں، مشینری جب ایک جانور کو مکمل کاٹ کر باہر نکال دے، پھر دوسرے جانور کو اس میں ڈالا جائے، تاکہ ہر جانور کا گوشت الگ الگ رہے اور شرکاء کو ان کے متعین حصے دیے جا سکیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
" ولو اشترك سبعة في سبع شياه لا يجزيهم قياسا، لأن كل شاة بينهم علي سبعة اسهم، و في الاستحسان يجزيهم، و كذا اثنان في شاتين."
(كتاب الأضحية،ج:6،ص:316،ط:دارالفكر)
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار. . . . .كذلك ليس لأحد الشركاء أن يركب الحيوان المشترك أو أن يحمله متاعا بدون إذن الشريك الآخر فإذا ركبه أو حمله وتلف يكون ضامنا حصة الشريك."
(المادة:96، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج:1،ص:96،ط:دار الجيل)
المحيط البرهاني میں ہے:
" في أضاحي الزعفراني: اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم أن يضحوا بها بينهم، ولم يسم لكل واحد منهم شاة بعينها فضحوا بها؛ كذلك فالقياس: أن لا يجوز.
وفي الاستحسان: يجوز؛ فقوله اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم؛ يحتمل شراء كل شاة بينهم، ويحتمل شراء سبع شياه على أن يكون لكل واحد منهم شاة، ولكن لا يعينها، فإن كان المراد هو الثاني، فما ذكر من الجواب باتفاق الروايات؛ لأن كل واحد منهم يصير مضحيا بشاة كاملة، وإن كان المراد هو الأول فما ذكر من الجواب على إحدى الروايتين، فإن الغنم إذا كانت بين رجلين ضحيا بها ذكر في بعض المواضع: أنه لا يجوز."
( كتاب الأضحية، الفصل الثامن،ج:6،ص100،ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو اشترى عشرة عشر أغنام بينهم فضحى كل واحد واحدة جاز، ويقسم اللحم بينهم بالوزن، وإن اقتسموا مجازفة يجوز إذا كان أخذ كل واحد شيئا من الأكارع أو الرأس أو الجلد، وكذا لو اختلطت الغنم فضحى كل واحد واحدة ورضوا بذلك جاز، كذا في خزانة المفتين."
(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا،ج:5،ص:305،ط: دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن