بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو الحجة 1446ھ 04 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

حیلہ اسقاط ، تیجہ چالیسواں کا رواج ہوجائے تو کیا حکم ہے


سوال

اگر کسی علاقہ میں مروجہ اسقاط اور کسی کے وفات کے بعد تیسرے ، نویں اور چالیسویں دن کے بعد  دعوت کرنا رائج ہو اور اس پر تعامل ہو، تو اس تعامل کی وجہ سے آیا اس میں کچھ نہ کچھ  گنجائش ہوسکتی ہے؟ خاص کر جب نہ کرنے کی صورت میں لوگوں کے اندر شدید مخالفت کا خطرہ بھی ہو۔

جواب

مروجہ حیلہ  اسقاط  متعدد مفاسد کی بنا پر ناجائزہے،  اسی طرح مرحوم کے ایصالِ ثواب کے  لیے سوئم، چالیسواں یا کوئی بھی وقت، دن یا کیفیت کا مخصوص کرنا اور  اس کو لازم سمجھنا شریعت میں ثابت نہیں؛لہٰذا یہ بدعت  اور ناجائز ہے، البتہ کسی تعیین کے بغیر   میت کے لیے ایصال ثواب کرنا ہر دن، ہر وقت جائز ہے، اور ہر قسم کے نفلی اعمال کا ثواب میت کو بخشا جاسکتا ہے، اس کا ثواب میت پہنچتا ہے،اس کے لیے گھر میں ہی جو افراد اتفاقًا جمع ہوں اور اعلان و دعوت کےالتزام کے بغیر اپنی خوشی سے کچھ پڑھ لیں، دن وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ ہو، اور قرآن پڑھنے کے عوض اجرت کا لین دین نہ ہو تو اس کی اجازت ہے،  لیکن اس پر  طے کرکے اجرت کا لین دین  یا  دعوت کا التزام کرنا جائز نہیں ہے۔

اور بدعات یا ناجائز امورکے رواج پڑجانے  سے وہ جائز نہیں ہوجاتا ہے، بلکہ ناجائز ہی رہتا ہے، اور تعامل وہ معتبر ہوتا ہے جو  شریعت سے متصادم نہ ہو، لہذا اس طرح کی بدعات  کو ختم کرنے کے لیے  اپنی استطاعت کے مطابق حکمت وبصیرت کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے۔

تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

مروجہ حیلہ اسقاط کا حکم / ایصال ِثواب کے لیے قرآن خوانی

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد»".

 (صحيح البخاري، کتاب الصلح، 3/ 184، رقم الحدیث: 2697، ط:  دار طوق النجاة)

فتاوی شامی میں ہے:

وفي البحر: من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع". 

( کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في القراءة للمیت وإهداء ثوابها له، 2/ 243، ط: سعید)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".

(الاعتصام للشاطبي، الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ص: 53،  ط: دار ابن عفان، السعودية)

مرقاة المفاتیح  میں ہے:

قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟.

(کتاب الصلاة، الفصل الأول، 3/ 31، ط: رشیدیة)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں