میری والدہ مرحومہ کے ترکہ میں کچھ سونا شامل تھا۔ میری بہن کا دعویٰ ہے کہ والدہ نے اپنی حیات میں اس سے کہا تھا کہ یہ سونا تمہارا ہے، لیکن والدہ نے اس پر قبضہ نہیں دیا تھا۔والد ہ کے انتقال کے بعد بڑے بھائی نے اس کو اپنے قبضہ میں لے لیا ، اورپھر بڑے بھائی نے میری بہن کو اس لیے دیا تاکہ وہ سب وارثوں میں تقسیم کرے، لیکن اب بہن یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ سونامیرا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا بہن کا یہ دعویٰ شرعاً معتبر ہے اور کیا ایسی صورت میں وہ سونا بطورِ ہبہ (تحفہ) شمار ہوگا یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ ً والدہ نے اپنی بیٹی کو سونے پر قبضہ نہیں دیا تھا ،بلکہ زندگی میں محض یہ کہا تھا کہ :یہ سونا تمہارا ہے ،اس سے ہبہ تام نہیں ہوا اور وہ سونا اس بیٹی کی ملکیت میں شامل نہیں ہوا۔ لہذا یہ سونا والدہ مرحومہ کا ترکہ شمار ہوگا اور ساری اولاد اپنے شرعی حصص کے مطابق اس سونے میں حق دار ہے ۔
بہن کا اکیلے اس سونے پر قبضہ کرنا اور دوسرے ورثاء کا حق نہ دینا ،ناجائز اور ظلم ہے۔ بہن پر لازم ہے کہ یہ سونا تمام ورثاء میں تقسیم کرے۔ترکہ کی تقسیم ورثاء کی تعداد دلکھ کر معلوم کر سکتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (188﴾
ترجمہ :"اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق(طور) مت کھاؤ اور ان (کے جھوٹے مقدموں کو )حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو (کہ اس کے ذریعے سے )لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ بطریق گناہ (یعنی ظلم )کے کھا جاؤ اور تم کو( اپنے جھوٹ اور ظلم کا )علم بھی ہو ( بیان القرآن )"
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."
(كتاب الهبة،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101415
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن