بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو القعدة 1446ھ 21 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ضعیف العمر والدہ کی جائیداد کو ان کی زندگی میں تقسیم کرنا


سوال

میری والدہ کی دو پراپرٹیاں ہیں والدہ حیات ہیں، مگر ان کی ذہنی کیفیت ایسی نہیں کہ وہ اس تقسیم کے حوالے سے کچھ بتا سکیں، اب کیا ان کی جگہوں کو بیچ کر تقسیم کر سکتے ہیں ،اگر تقسیم کر سکتے ہیں تو کس طریقے پر کریں نیز مذکورہ جگہ کا کرایہ آرہا ہے، اس  کرایہ کا استعمال اولاد کے لیے جائز ہے یا صرف والدہ ہی کے استعمال میں رکھا جائے، اگر یہ استعمال اولاد کے لیے جائز ہے تو اس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا  اور جب کبھی والدہ کا انتقال ہو جائے تو میراث کی تقسیم کس طرح کی جائےگی، آیا اس طریقے پر کہ بیٹے کو دوگنا اور بیٹی کو ایک حصہ یا کوئی اور طریقہ ہوگا؟ ورثاء میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں،نیز اگر کوئی وارث بیچنے سے انکار کرے تو اس چیز کا کرایہ کیسے تقسیم کیا جائے۔

 والدہ کے پاس کچھ گولڈ، ہیرے کا سیٹ اور ڈالرز تھے، جو انہوں نے ایک بیٹی کے پاس رکھوائے تھے ،اب وہ بیٹی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اس سے پوچھیں تو کہتی ہے کہ والدہ نے وہ روڈ پر پھینک دیا تھا، جبکہ والدہ کی ذہنی کیفیت اس وقت ٹھیک تھی جبکہ آج بھی والدہ یہ کہتی ہیں کہ میں نے اس بیٹی کے پاس رکھوائے ہیں ،اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اولاد کو حق نہیں کہ وہ  اپنی والدہ کی جائیداد  ان کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر آپس میں تقسیم کرے، یا جائیداد  سے آنے والے کرایہ کو اپنے ذاتی استعمال میں لائے، جب تک والدہ حیات ہیں،تب  تک اس جائیداد کو محفوظ رکھا جائےگا،اوراس کی آمدن کو والدہ کی ضروریات میں ہی خرچ کیا جائے گا،اور ان کی وفات کے بعد ہی تمام متروکہ جائیداد، میراث کے  شرعی ضابطہ کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔

2-سائل کی والدہ  نے جو سونا وغیرہ اپنی بیٹی کے پاس رکھوایا ہے وہ امانت کے حکم میں ہے اور امانت کالوٹانا ضروری ہے ،اور امانت کو امانت رکھوانے والے کی اجازت کے بغیر ذاتی استعمال میں لانا خیانت ہے،لہذا اگر آپ کی بہن  والدہ   کی امانت واپس نہیں لوٹائیں گی تو سخت گناہ گار ہوں گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(الولي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه)."

وفي الرد: (قوله لا المال) فإنه الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط."

(كتاب النكاح،باب الولی، ج:3، ص:76، ط:سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا."

( ج:1، ص:61، مادة: 96، دار الکتب العلمیة، بیروت)

قرآن کریم میں ہے:

"فَلْیُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَه وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه(بقرة: 283)"

ترجمہ: ”تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے “۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن أنس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: «‌لا ‌إيمان ‌لمن ‌لا ‌أمانة له ولا دين لمن لا عهد له» . رواه البيهقي في شعب الإيمان."

(کتاب الإیمان، الفصل الثاني، 1 /17،المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:

’’اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول للہ نے ایسا کہ کم دیا ہوگا جس میں یہ نہ فرمایاہو کہ جس شخص میں امانت نہیں اس کا ایمان بھی کچھ نہیں، اور جس میں ابقاء عہد نہیں اس کا دین بھی کچھ نہیں۔ ‘‘

(مظاہر حق،ج:1،ص:118،ط:دار الاشاعت)

البحر الرائق میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الودیعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، 4 /338 ط:  رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں