اگر کوئی اپنا عزیز فوت ہو جائے تو اس کے سر سے نکلے ہوئے بال یاد گارکے طور پر گھر میں رکھ سکتے ہیں ؟
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خود اپنے موئے مبارک دینا اور صحابہ کرام کا رسول اللہ ﷺ کے سر یا ڈاڑھی مبارک کے بال بطورِ تبرک ویادگار کے اپنے پاس رکھنا نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ لہذامذکورہ صورت میں اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کے سر یا ڈاڑھی کے بال اپنے پاس بطورِ تبرک ویادگار کےرکھنا درست نہیں ہے۔
نیزفقہاءِ کرام نے نیک لوگوں کی باقیات سے تبرک حاصل کرنے کو جہاں جائز قرار دیا ہے، وہاں لباس، انگوٹھی وغیرہ کو تبرک کے طور پر رکھنے اور پہننے کا ذکر کیا ہے۔ کہیں بھی اس کی مثال میں سر یا ڈاڑھی کے بالوں کو اپنے پاس رکھنے کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ اگر حضور ﷺ کے بعد دیگر بزرگوں کے بالوں کو بطور تبرک اپنے پاس رکھنا امت میں رائج ہوتا تو فقہاءِ کرام اس کا ذکر ضرور فرماتے۔اور اس طرح کی چیزوں کے متعلق آئندہ کے لیے فتنوں کا سبب بن جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔
صحیح مسلم میں ہے :
"عن أنس بن مالك؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى جمرة العقبة. ثم انصرف إلى البدن فنحرها. والحجام جالس. وقال بيده عن رأسه. فحلق شقه الأيمن فقسمه فيمن يليه. ثم قال "احلق الشق الآخر" فقال "أين أبو طلحة؟ " فأعطاه إياه."
(کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ، ج:2، ص:947، رقم:1305، ط:مطبعة عيسى البابي۔۔، القاهرة)
صحیح بخاری میں ہے:
"عن أنس: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما حلق رأسه كان أبو طلحة أول من أخذ من شعره»."
(کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل به شعر الإنسان،ج:1، ص:45، رقم:171، ط:السلطانية)
مرقاة المفاتيح ميں ہے:
"قال النووي: في الحديث التبرك بآثار الصالحين ولبس ملابسهم وجواز لبس الخاتم."
(کتاب اللباس، باب الخاتم، ج:7، ص:2800، ط:دار الفكر، بيروت)
شرح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره میں ہے:
"وقال الشيخ وهذا الحديث أصل في التبرك بآثار الصالحين ولباسهم كما يفعله بعض مريدي المشائخ من لبس أقمصهم في القبر والله أعلم لمعات."
(باب ما جاء في التقليس التقليس الضرب۔۔، ص:105، ط:قديمي كتب خانة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101388
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن