بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک بندے کا قربانی کے لیے گائے خریدنے کے بعد دوسرے افراد کو شریک کرنا کیسا ہے؟


سوال

عبداللہ نے قربانی کی نیت سے کچھ عرصہ پہلے ایک گائے خریدی لیکن اب مالی تنگدستی کی وجہ سے کسی اور کو اس قربانی میں شریک کرنا چاہتا ہے تا کہ کچھ مالی مشکلات کم ہوں۔ کیا عبداللہ شرعی طور پر اس طرح کر سکتا ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ   میں یہ تفصیل ہے:

کہ اگر مذکورہ شخص عبداللہ مالدار  ہے یعنی صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے اس پر قربانی لازم ہے  اور قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:

1۔ خریدتے وقت مزید افراد کو  اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت میں کسی قسم کی کراہت کے بغیر مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا۔ البتہ بہتر یہی ہے خریدنے سے پہلے شریک کرے۔

2۔خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت  نہیں کی تھی  تو ایسی صورت کسی اور کو اس میں شریک کرنا مکروہ ہوگا، البتہ اگر کرلے تو  بھی سب کی قربانی ہوجائے گی۔

اور اگر عبد اللہ  مال دار نہیں، بلکہ غریب ہے  اور  قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں:

1۔ خریدتے وقت مزید افراد کو بھی اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا۔

2۔۔ خریدتے وقت مزید افراد کو  اس میں شریک کرنے کی نیت  نہیں کی تھی  تو غیر صاحبِ نصاب شخص کے قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے وہ اس پر قربانی کے لیے لازم ہوگیا، لہذا اب کسی اور شریک نہیں کیا جاسکتا۔اگر شریک کرلیا تو باقی حصوں کی رقم صدقہ کرنا لازم ہوگی۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے: 

"ولو اشترى بقرةً يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكماً، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسراً، وإن كان فقيراً معسراً فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها."

(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، ج:5، ص:304، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

قال في الدر"(وصح) (اشتراك ستة في بدنة شريت لأضحية) أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا (استحساناً وذا) أي الاشتراك (قبل الشراء أحب.

قال في الرد"(قوله: أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا)،كذا في بعض النسخ، والواجب إسقاطه كما في بعض النسخ ؛ لأن موضوع المسألة الاستحسانية أن يشتريها ليضحي بها عن نفسه، كما في الهداية والخانية وغيرهما، ولذا قال المصنف بعد قوله استحساناً: وذا قبل الشراء أحب. وفي الهداية: والأحسن أن يفعل ذلك قبل الشراء؛ ليكون أبعد عن الخلاف وعن صورة الرجوع في القربة اهـ. وفي الخانية: ولو لم ينو عند الشراء ثم أشركهم فقد كرهه أبو حنيفة.
أقول: وقدمنا في باب الهدي عن فتح القدير معزواً إلى الأصل والمبسوط: إذا اشترى بدنةً لمتعة مثلاً ثم أشرك فيها ستة بعدما أوجبها لنفسه خاصة لايسعه؛ لأنه لما أوجبها صار الكل واجباً بعضها بإيجاب الشرع وبعضها بإيجابه، فإن فعل فعليه أن يتصدق بالثمن، وإن نوى أن يشرك فيها ستةً أجزأته؛ لأنه ما أوجب الكل على نفسه بالشراء، فإن لم يكن له نية عند الشراء ولكن لم يوجبها حتى شرك الستة جاز. والأفضل أن يكون ابتداء الشراء منهم أو من أحدهم بأمر الباقين حتى تثبت الشركة في الابتداء اهـ ولعله محمول على الفقير أو على أنه أوجبها بالنذر، أو يفرق بين الهدي والأضحية تأمل."

(كتاب الأضحية، مدخل، ج:6، ص:317، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں