میں نے ایزی پیسہ اکاؤنٹ بنایا ہے، اس اکاؤنٹ میں رقم جمع رکھ کر یہی رقم گھر بیٹھے بجلی گیس وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی اور آن لائن خریداری میں کام آتی ہے، ایزی پیسہ کی جانب سے اکاؤنٹ صارف کو ایک آفر دی جاتی ہے کہ کم از کم دو ہزار روپے اکاؤنٹ میں رہنے دیں، اس صورت میں روزانہ دو روپے آپ کو دیے جائیں گے اور یہ دو روپے صارف چاہے تو لے، ورنہ اس آفر کو رد کر دے۔
سوال یہ ہے کہ صارف کی جانب سے اگر آفر رد کر کر دی جائے، تب اس صورت میں ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے استفادہ جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے، اور احادیث کی روشنی میں یہ ضابطہ بھی مسلّم ہے کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، بعض روایات میں اسے صراحتاً ’’ربا‘‘ کہا گیا ہے اور بعض صحیح روایات میں اسے ’’ربا‘‘ میں شامل کیا گیا ہے؛ اس لیے ٹیلی نار ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانا اور اکاؤنٹ ہولڈر کا قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات (فری منٹ، ایس ایم ایس اور فری ایم بی وغیرہ) وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر کمپنی کی طرف سے اکاؤنٹ کھلوانے کے معاہدہ میں یہ پیسشکش موجود ہو کہ مخصوص رقم اکاؤنٹ میں موجود ہونے کی شرط پر روزانہ دو روپے صارف کو دیئے جائیں گے تو ایسے اکاؤنٹ کا کھلوانا ہی جائز نہیں ہوگا چاہے کمپنی کی طرف سے صارف کو دو روپے موصول ہونے کے بعد واپس رد کرنے کا اختیار ہویا نہ ہو، کیوں کہ بعد میں آفر رد کرنے کی صورت میں اگرچہ سود کا لینا تو لازم نہیں آئے گا، لیکن اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے سودی معاہدے پر رضامندی اور سودی معاہدے کو تسلیم کرنے کا گناہ تو ملے گا۔
"عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ، إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا". ( صحیح البخاری 3814)
ترجمہ: سعید بن ابی بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ حاضرہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ، انہوں نے کہا: کیا آپ (ہمارے پاس) نہیں آئیں گے کہ میں آپ کو ستواورکھجورکھلاؤں اورآپ ایک ( باعظمت ) مکان میں داخل ہوں (جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے) پھر آپ نے فرمایا: تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں، اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اورپھروہ تمہیں ایک تنکے یاجوکے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابربھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا؛ کیوں کہ وہ بھی سود ہے۔
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327):
"عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا»".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200539
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن