درود ناریہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
’’درود ناریہ‘‘ کے الفاظ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ درود کے جن صیغوں میں شرکیہ یا فاسد المعنیٰ لفظ نہ ہو ایسے الفاظ سے درود پڑھنے سے نفسِ درود کے فضائل حاصل ہوجاتے ہیں؛ لہٰذا درودِ ناریہ کے صیغے سے بھی درود شریف کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
نیز درود ناریہ اکابرین کا مستند اور مجرب وظیفہ رہا ہے، اور تمام جائز حاجات کے حصول اور مصائب وپریشانیوں سے نجات کے لیے اس کا ورد مجرب ہے، 4444 مرتبہ اس کا ورد مطلوبہ مقصد کے حصول میں زیادہ مفید ہے، اسے پڑھنے کے لیے مخصوص اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے الفاظ دو طرح سے منقول ہیں:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ صَلَاةً كَامِلَةً وَّ سَلِّمْ سَلَامًا تَامًّا عَلٰى سَيِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَلَاةً تَنْحَلُّ بِهَا الْعُقَدُ وَ تَنْفَرِجُ بِهَا الْكُرَبُ وَ تُقْضٰى بِهَا الْحَوَائِجُ وَ تُنَالُ بِهَا الرَّغَائِبُ وَ حُسْنُ الْخَوَاتِيْمِ وَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ الْكَرِيْمِ وَ عَلٰى آلِهِ وَ صَحْبِهِ فِيْ كُلِّ لَمْحَةٍ وَّ نَفَسٍ بِعَدَدِ كُلِّ مَعْلُوْمٍ لَّكَ.
اس صورت میں "ها" ضمیر لفظ "صلاة" کی طرف لوٹ رہی ہے، اور ہمارے ہاں اسی طرح پڑھنے کا معمول ہے۔
اور یوں بھی منقول ہیں:
تَنْحَلُّ بِهِ الْعُقَدُ وَتَنْفَرِجُ بِهِ الْکُرَبُ وَتُقْضٰی بِهِ الْحَوَائِجُ ... الخ
اس صورت میں "ہ" ضمیر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کی طرف لوٹ رہی ہے، اور بطورِ وسیلہ اس طرح پڑھنا بھی درست ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111200839
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن