ایک شخص باہر ملک میں ہے اور وہ اپنی قربانی کا کسی کو وکیل بنادےکہ میری طرف سے قربانی کرو اور وکیل جس ملک میں ہے ان کی عید موکل کی عید سے ایک دن پہلے ہے تو آیا وکیل کا اس کی طرف سے ایک دن پہلے قربانی کرنا جائز ہوگا یا نہیں ؟ یعنی وکیل کی عید کا اعتبار ہو گا یا موکل کی عید کا اعتبار ہوگا ؟
واضح رہے کہ جس آدمی پر قربانی واجب ہو ،اگر وہ قربانی کے لیے کسی دوسرے ملک قربانی کرنے کے لیے کہہ دے تو اس طرح دوسرے ملک میں قربانی کرنا درست ہے ،البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے گی وہ دونوں ملکوں میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہ ہوگی ۔
لہذ ا صورت ِ مسئولہ میں اگر موکل کی عید قربانی کرنے والے وکیل کی عید سے ایک دن پہلے ہو تو موکل کی طرف سے قربانی کرنا جائز نہیں ہوگا ،بلکہ دونوں ملکوں میں قربانی کے جو مشترک دن ہوں گے ،انہی دنوں میں قربانی کی جائے ۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"لأن الذبح هو القربة فيعتبر مكان فعلها لا مكان المفعول عنه.وإن كان الرجل في مصر وأهله في مصر آخر فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة فقال: ينبغي لهم أن لا يضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة ."
(کتاب التضحیۃ،فصل فی شرائط جواز اقامۃ الواجب فی الاضحیۃ،ج:5،ص:74، ط: دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101123
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن