بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوران نماز مقتدی کو دوسری صف سے پہلی صف میں لیجانا


سوال

  زید دوسری صف میں نماز پڑھ رہا تھا ،ایک شخص نے اس کو کھسکا کر پہلی صف میں کھڑا کر دیا، ایک عالم دین کا کہنا ہے کہ چونکہ زید نے کھسکانے والے کو عملاً جواب دیا ہے اس لیے زید کی نماز فاسد ہوگئی کیا یہ بات صحیح ہے درست حکم بتلا کر ممنون و مشکور ہوں؟

جواب

صورت مسئولہ میں چوں کہ اگلی صف میں جگہ خالی ہونے کی وجہ سے زید کو  آگے بڑھایا ہے اور زید آگے بڑھ گیا تو اس سے زید کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ومتى استوى جانباه يقوم عن يمين الإمام إن أمكنه وإن وجد في الصف فرجة سدها وإلا انتظر حتى يجيء آخر فيقفان خلفه، وإن لم يجئ حتى ركع الإمام يختار أعلم الناس بهذه المسألة فيجذبه ويقفان خلفه، ولو لم يجد عالما يقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورة، ولو وقف منفردا بغير عذر تصح صلاته عندنا خلافا لأحمد. اهـ." 

(جلد1، ص: 568، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"بقي ما إذا رأى الفرجة بعد ما أحرم هل يمشي إليها؟ لم أره صريحا. وظاهر الإطلاق نعم، ويفيده مسألة من جذب غيره من الصف كما قدمناه فإنه ينبغي له أن يجيبه لتنتفي الكراهة عن الجاذب، فمشيه لنفي الكراهة عن نفسه أولى فتأمل."

(جلد 1 ص:570،  ط : الحلبي) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويكره للمنفرد أن يقوم في خلال صفوف الجماعة فيخالفهم في القيام والقعود وكذا للمقتدي أن يقوم خلف الصفوف وحده إذا وجد فرجة في الصفوف وإن لم يجد فرجة في الصفوف روى محمد بن شجاع وحسن بن زياد عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لايكره فإن جر أحداً من الصف إلى نفسه وقام معه فذلك أولى. كذا في المحيط وينبغي أن يكون عالماً حتى لاتفسد الصلاة على نفسه. كذا في خزانة الفتاوى".

(جلد 1،ص: 107، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں