میرے بھائی نے ایک موٹر سائیکل خریدی جو چوری ہو گئی۔ یہ موٹر سائیکل اس نے قرض لے کر خریدی تھی، اور قرض لیتے وقت ہم سے مشورہ بھی نہیں کیا۔ وہ ایک طالب علم ہیں، اور اب ان کے پاس اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ والدہ کہہ رہی ہیں کہ وہ قربانی نہیں کریں گی، بلکہ وہی پیسے قرض کی ادائیگی میں دیں گی۔ تو کیا ان پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں، اگر سائلہ کی والدہ صاحبِ نصاب ہیں، یعنی ان کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں، واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زیادہ ہو (چاہے وہ مال نقدی کی صورت میں ہو، یا سونا چاندی ہو، یا کسی اور شکل میں ،مالِ تجارت ہونا ضروری نہیں)، تو ایسی صورت میں بیٹے کا قرض ادا کرنا قربانی کو ساقط نہیں کرے گا، بلکہ قربانی کرنا لازمی ہوگا۔اور اگر والدہ صاحبِ نصاب نہیں ہیں اور صرف نفلی قربانی کی نیت سے پیسے جمع کیے ہیں، تو ایسی صورت میں قربانی لازمی نہیں ہے، بلکہ وہ ان پیسوں سے بیٹے کا قرض بھی ادا کرسکتی ہیں۔
فتاویٰ ھندیہ میں ہے:
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية."
(كتاب الزكاة،الباب الثامن في صدقة الفطر،ج:1،ص:دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وفقير) عطف عليه (شراها لها) لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها.
("قوله عطف عليه) أي على فاعل تصدق (قوله شراها لها) فلو كانت في ملكه فنوى أن يضحي بها أو اشتراها ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك لا يجب، لأن النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر بدائع (قوله لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء وهذا ظاهر الرواية لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب وهو النذر بالتضحية عرفا كما في البدائع."
(كتاب الأضحية،ج:6،ص:321،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100348
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن