زید کی دودھ کی دکان ہے، وہ اگر دودھ میں پانی نہ ملائے تو اس سے اس کی دکان کے اخراجات اور کرایہ بھی نہیں بن پاتے، کیا وہ دودھ میں اتنا پانی ملاسکتا ہے جس سے اس کی دکان کے اخراجات اور کرایہ بن پائے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر زید دودھ میں پانی ملا کر اس کو خالص دودھ کہہ کر فروخت کرے یا لوگوں میں یہ معروف ہو کہ یہ خالص دودھ ہےاوروہ اس میں پانی ملاکر لوگوں کو بتائے بغیر فروخت کرے تو یہ دھوکا دینا ہے، جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے، البتہ اَگر گاہک کو پہلے ہی بتادے یا لکھ کر لگادے کہ اس میں پانی ملا ہوا ہے اور اُس کی اتنی قیمت ہے اور گاہک اس کو بخوشی خریدلے تو یہ جائز ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے :
"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام ... قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته".
(کتاب البیوع ، باب خیار العیب،5 / 47، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100537
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن