بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دینی پیغامات اور پوسٹوں کا حکم


سوال

 دینی پیغامات اور پوسٹوں کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

دین کی نشرو اشاعت، تذکیر اور نصیحت کی غرض سے آیاتِ قرانیہ، احادیثِ مبارکہ، اور دینی پیغام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، تاہم اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا  نہایت ضروری ہے:

(۱) مذکورہ پیغامات معتبر اور مستند ہوں، کیوں کہ آج کل دین کے نام پر لاشعوری  میں لوگ غلط باتیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں، اس لیے تحقیق اور تسلی کے بغیر مذکورہ  پیغامات نہ بھیجے جائیں، خاص کر  جب وہ قرآنِ مجید یا حدیثِ مبارک کی طرف منسوب ہوں۔

(۲) قرآن مجید کی آیات کو اس کے   عربی رسم الخط  (رسمِ عثمانی ) میں لکھاجائے، اس لیے کہ قرآنِ کریم کی کتابت میں  رسمِ عثمانی (جوکہ عام قرآن کا رسم الخط ہے) کی اتباع واجب ہے، لہذا کسی اور رسم الخط میں قرآنی آیت لکھ کر  پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے، البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جاسکتا ہے۔

باقی مستند بات کسی پوسٹ کی صورت میں موصول ہو تو اسے ہر ایک تک پہنچانا واجب نہیں ہے، بلکہ موقع محل کے اعتبار سے اس کا حکم مختلف ہوگا، لہٰذا حکمت و تدبیر ملحوظ رکھ کر دین کی بات آگے پھیلائی جائے، نیز بوقتِ ضرورت اگر کسی پوسٹ کو ڈیلیٹ کرنا ہو تو اس میں بھی حرج نہیں ہے۔

 حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار»". 

(صحیح مسلم ،1 / 10، باب في التحذير من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال ابن فارس: الذي نقوله: إن الخط توقيفي لقوله تعالى: {علم بالقلم علم الأنسان ما لم يعلم} {ن والقلم وما يسطرون} وإن هذه الحروف داخلة في الأسماء التي علم الله آدم. وقد ورد في أمر أبي جاد ومبتدأ الكتابة أخبار كثيرة ليس هذا محلها وقد بسطتها في تأليف مفرد. فصل : القاعدة العربية أن اللفظ يكتب بحروف هجائية مع مراعاة الابتداء والوقوف عليه وقد مهد النحاة له أصولا وقواعد وقد خالفها في بعض الحروف خط المصحف الإمام، وقال أشهب: سئل مالك: هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ فقال: لا إلا على الكتبة الأولى رواه الداني في المقنع، ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة، وقال في موضع آخر: سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف، أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك؟ قال: لا، قال أبو عمرو: يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ  نحو الواو في "أولوا"،وقال الإمام أحمد: يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير  ذلك وقال البيهقي في شعب الإيمان: من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف، ولايخالفهم فيه ولايغير مما كتبوه شيئا فإنهم كانوا أكثر علما وأصدق قلبا ولسانا وأعظم أمانة منا فلا ينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكاً عليهم".

 (4 / 168، النوع السادس والسبعون: فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ ، ط: مجلس العلمی، ہند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں