میری بیوی اپنی مرضی سے اپنی امی کے گھر چلی گئی ، اور وہ کورٹ کے ذریعے خلع لینا چاہتی ہیں، بیوی نے خلع کا دعویٰ اس بنیاد پر کیا ہے کہ میں خرچہ دینے میں تنگی کرتا ہوں ، اور وہ میرے پانچ بچوں کو بھی لے گئی ہے، تین لڑکے ہیں 15،14،13 سال کےہیں اور دو لڑکیاں ہیں 6 اور دس سال کی ۔ کورٹ کے ذریعے بچوں کی پرورش کے حق کا مقدمہ بھی کیا ہے ۔
1.کورٹ کے ذریعے خلع کا شرعی حکم کیا ہے ؟
2.جدائی کی صورت میں بچوں کی پرورش کے حق کا کیا حکم ہے ؟
میں نے سنا ہے کہ کہ کورٹ کے ذریعے بچے 18 سال ماں کے پاس رہ سکتے ہیں اور ا س کے بعد انہیں اختیار ہوتا ہے ۔ اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
1.خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، نیز طلاق دینا بھی شوہر کا حق ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔شوہر اگر بیوی کی بنیادی ضروریات پوری کرتا ہو تو محض تنگی کو بنیاد بناکر خلع لینا جائز نہیں۔
البتہ بعض مخصوص حالات میں قاضی شرعی کو یا قاضی نہ ہو نے کی بنا ء پر مسلمان جج کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر بھی میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں جو نکاح کے مصالح اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے، اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلاً بیوی کا نان ونفقہ اور حقوق زوجیت ادا کرنا وغیرہ، اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہواور اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی نہ لائے اور نہ ہی خود عورت کو طلاق دے ، تو ایسی صورت میں قاضی یا مسلمان جج کے سامنے عورت کی مظلومیت شرعی شہادت سے ثابت ہونے کی صورت میں قاضی یا مسلمان جج میاں بیوی میں تفریق کر کے نکاح ختم کر سکتا ہے۔ باقی عدالت کا فیصلہ کیا ہے ؟ اور اس فیصلہ سے نکاح ختم ہو گا یا نہیں ؟ اس کے بارے میں شرعی حکم بتلانے کے لیے عدالت کے فیصلہ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ، لہذا عدالتی فیصلہ بمعہ اردو ترجمہ کہ منسلک کیا جائے پھر اس کے بارے میں جواب دیا جائے گا ۔
(ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)
2.اگر شوہر عدالت کو خلع کی اجازت دے دے ، یا خلع کے کاغذات پر دستخط کردے تو خلع واقع ہوجائے گی، اور میاں بیوی کے درمیان جدائی کی صورت میں بچے کی پرورش کا حق سات سال (عمر ہونے تک )تک اور بچی کی پرورش کا حق نو سال تک والدہ کو حاصل ہوتا ہے، اس کے بعد بچوں کا والد پرورش کا حق دار قرار پاتا ہے۔اور بلوغت کے بعد بچوں کو اجازت ہے کہ وہ والدین میں سے جس کے پاس رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
(كتاب الطلاق، باب الخلع ،ج:3،ص:441، ط: سعيد)
وفیہ ایضاً:
"(تثبت للأم)...(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب...والأم والجدة) لأم، أو لأب(أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية...(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع ...(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.
(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية."
(كتاب الطلاق، باب الحضانہ، ج:3، ص:555، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505101805
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن