بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چرس کی کمائی کا حکم


سوال

میرا ایک بھائی یورپ میں چرس کا کام کرتا ہے اور چرس خریدنے والے تمام کے تمام غیر مسلم ہیں، لہذا میرے بھائی کی کمائی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ چرس کا استعمال   نشے کے ساتھ ساتھ ادویہ کے لیے بھی ہوتا ہے، لہٰذا اس کو بیچنے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خریدنے والا اسے نشے یا کسی اور غلط کام کے لیے استعمال نہ کرے، یعنی اگر بیچنے والے کو یہ بات معلوم ہو کہ خریدنے والا چرس کا استعمال نشے کے لیے کرے گا تو اسے بیچنا درست نہیں ہے اور اس کی کمائی بھی مکروہ ہوگی، اور اگر یہ بات معلوم ہو کہ خریدنے والا اسے ادویہ جات کے لیے استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کو بیچنا درست ہے اور اس کی کمائی بھی جائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.

وفي حاشيته: (قوله وصح بيع غير الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع، وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن، وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها."

(كتاب الأشربة، ج: 6، ص: 454، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"وما كان ‌سببا ‌لمحظور فهو محظور."

وفيه(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 350، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما زاد القهستاني معزيا للخانية أنه يكره بالاتفاق.

وفي حاشيته: (قوله ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف قهستاني (قوله لا تقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لا تقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية قهستاني عن الجواهر.

أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لا يظهر إلا على قول من قال إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة والأصح خطابهم وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع ‌العصير منهما فتدبر اهـ."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 391، ط: دار الفكر بيروت)

کفایت المفتی میں ہے:

’’سوال: مسلمان کو افیون، چرس، کوکین کی تجارت کرنا اور اس سے منافع حاصل کرکے اپنی ضروریات زندگی میں صرف کرنا شریعت محمدی سے جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی اسی تجارت میں سے کسی دوسرے مسلمان کی دعوت کرے، اس شخص کو باوجود رلم ہونے کے دعوت کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: افیون، بھنگ، کوکین یہ تمام چیزیں پاک ہیں، اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائز ہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائز ہے، مگر ان سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے، تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی ناجائز ہے۔‘‘

(کتاب الحظر والابحہ، ماکولات و مشروبات، ص: ۱۲۹، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں