بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار ہزار کی آبادی والے گاؤں میں نمازِ جمعہ کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں اکبری ضلع ٹانک میں نمازِجمعہ کے بارے میں علماء حضرات کا اختلاف ہے ،بعض علماء وجوبِ جمعہ کے قائل ہیں  ،جب کہ دیگر عدمِ جواز کے قائل ہیں ،گاؤں کی آبادی مردم شماری کے لحاظ سے چارہزار سے زیادہ ہے ،گاؤں میں بیس کے قریب دکانیں ہیں ،جو  اکٹھی نہیں ہیں ،بلکہ علیحدہ علیحدہ ہیں ،مساجد کی تعداد بارہ ہے ،تین پنکچر ،دو ویلڈر کی دکانیں ہیں ،دو عدد آٹا چکی کی مشینیں ہیں ،ایک سرکاری ہائی اسکول اور   ایک پبلک ہائی اسکول ہے ،پرائمری اسکول دو مردانہ اور دو زنانہ ہیں ،جب کہ ایک مڈل اسکول زنانہ بھی ہے ،آبنوشی کے لیے دو عدد ٹیوب ویل ہیں ،دوائی کے دو اسٹور ہیں، بجلی ،سڑک اور غلہ منڈی بھی ہے ،چار عدد درزی ہیں ،دکانوں پر گھی ،آٹا ،کپڑااور دہی وغیرہ ملتاہے ،لیکن گاؤں میں ڈاکخانہ ،تھانہ ،ہسپتال ،مسافر خانہ اور ہوٹل نہیں ہیں ،جب کہ قصاب،دھوبی ،حجام ،کومہار اور زرگر بھی نہیں ہیں،اسی طرح ترکھان ،لوہار اور موچی پہلے یہاں کام کرتے تھے ،اب انہوں نے اپنے پیشے چھوڑدیئے ہیں ،فی الحال یہ پیشے والے یہاں گاؤں میں موجود ہیں لیکن کام نہیں کرتے۔

کچھ گھرانے اس گاؤں  کے رہنے والے گاؤں سےباہر  نکل کر  اپنی زمینوں میں انہوں نے گھر بنائے ہیں،ان گھروں اور گاؤں کے درمیان کم از کم ایک کلو میٹر یا کم و بیش فاصلہ ہوگااور درمیان میں زرعی زمینیں اور کھیت ہیں ،کچھ گھرانوں کے علیحدہ نام بھی رکھے ہیں،جیسے حاجی آباد ،اجمل آباد وغیرہ ،لیکن یہ گھرانے اپنا سودا سلف گاؤں کی دکانوں سے خریدتے ہیں،اب اس تفصیل کی روشنی میں درج  ذیل امور کا حل مطلوب ہے :

1:اس گاؤں میں نمازِ جمعہ جائز ہے یا نہیں ؟

2:جو گھرانے گاؤں سے باہر نکل چکے ہیں ،یہ گھرانے گاؤں میں شامل ہوں گے یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے،اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا  بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا درست ہے ،بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی آبادی تین یا چار ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، اس میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ گاؤں وبستی  جس کی آبادی  مردم شماری کے لحاظ سے  چار ہزار  افراد  سے زیادہ  پر مشتمل ہے اور اس میں ضروریاتِ زندگی بھی میسر ہیں ،تو اس میں نمازِ جمعہ پڑھنا جائز ہے ۔ 

نیز جو گھرانے اس گاؤں سے باہر نکل کر اپنی زمینوں میں آباد ہوگئے ہیں،اگر عرف میں انہیں گاؤں کا حصہ ہی سمجھا جاتاہو اور اسی طرح سرکاری طور پر بھی وہ اسی گاؤں کا حصہ سمجھے جاتے ہوں تو وہ اس گاؤں میں داخل شمار ہوں گے،لیکن جو لوگ گاؤں سے دور الگ جگہ منتقل ہو گئے ہیں اور ان کی آبادیوں کے نام بھی الگ الگ ہیں اور ان کی آبادی مستقل ایک چھوٹا گاؤں سمجھی جاتی ہو تو وہ اس بڑے گاؤں کا حصہ شمار نہیں ہوں گے،آبادی کی گنتی میں ان کے علاوہ افراد کو شمار کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة،138/2،ط:سعيد)

            امداد الفتاوی میں ہے:

’’اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں‘‘۔ 

(کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ الجمعۃ والعیدین ،488/1،ط:دارالعلوم)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ قصبات اور قریہ کبیرہ میں نمازِ جمعہ  فرض ہے اورادا ہوتی ہے اور یہ بھی تصریح فرمائی ہے کہ چھوٹے قریہ میں باتفاقِ علمائے حنفیہ  جمعہ نہیں ہوتا ۔۔ اور قریہ کا چھوٹا بڑا ہونا مشاہدہ  سے اور کثرت و قلتِ آبادی سے معلوم ہوتا ہے ،جس قریہ میں تین چار ہزار آدمی آباد ہوں گے ظاہرا وہ قریہ کبیرہ بحکمِ قصبہ ہو سکتاہے اور اس سے کم آبادی ہو تو وہ قریہ صغیرہ کہلائے گا۔"  

(کتاب الصلوۃ ،باب الجمعۃ ، 124/5،ط:دارالاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں