کال سینٹر پر کام کرنا کیساہے؟
واضح رہے کہ کال سینٹر کسی ادارے کے ایسے انتظام وبندوبست کو کہا جاتا ہے جہاں کسٹمر اپنی شکایات کے حل یا معلومات کے حصول کے لیے فون کرے اور نمائندہ اس کو سہولت فراہم کرے؛ لہذا جو کال سینٹر ز کسی ادارے اور کمپنی میں شکایت سننے یا معلومات وغیرہ فراہم کرنے کے لیے قائم ہیں ، تو اس میں ملازمت کے جائز ہونے یا نا جائز ہونے کا مدار وہاں کے کام پر ہوگا، اگر اس ادارے یا کمپنی کا کام جائز کام ہو تو ملازمت کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔
اسی طرح جو کال سینٹر ز مستقل قائم ہیں اور بیرون ملک مختلف کمپنیوں کی اشیاء کی تشہیر کرکے اس کو فروخت کرتے ہیں، اگر یہ کام جائز اشیاء کا ہو، اور اس کام میں کوئی اور شرعی خرابی نہ پائی جائے تو کمیشن پر اس طرح کام کرنا جائز ہے، لیکن اگر اس کام میں جھوٹ بولنا پڑتا ہو، کال سینٹر والے اپنے آپ کو اسی ملک کا ظاہر کرتے ہوں جس ملک میں کمپنی ہوتی ہے، اور اپنا نام بھی ان ہی ملکوں کے رہائشیوں کی طرح بتائے جاتے ہوں؛ تاکہ خریدار یہ سمجھے کہ یہ ہمارے ملک میں ہی بیٹھ کر ہم سے سودا کررہے ہیں ، تو اس طرح جھوٹ بول کر کال سینٹر کا کام کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(کتاب الاجارۃ , باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد 6 ص: 63 ط: دارالفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح ......وكذا لو استأجر رجلا ليقتل له رجلا أو ليسجنه أو ليضربه ظلما وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلا يكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانا لقطع عضو جاز."
(کتاب الإجارۃ ، فصل فی أنواع شرائط ركن الإجارۃ، جلد 4 ص: 189 ط: دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144412101379
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن