تقریبا چار ماہ قبل میری بیٹی کی شادی ہوئی تھی ، پھر کچھ دنوں بعد ان کے گھر میں جھگڑا شروع ہوگیا، میں ایک دن صبح کے وقت بیٹی کے گھر گیا تھا، تو بیٹی نے چائے بنائی اور کیتلی میں ڈال کر لے کر آئی اور سب کے لیے کپ میں چائے ڈالی اور سب نے چائے پی، پھر میں بیٹی کے گھر سے واپس اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا۔ تقریبا ایک گھنٹے بعد مجھے فون آیا کہ داماد کی طبیعت خراب ہے اور ان کو ہسپتال لایا گیا ہے تو میں بھی ہسپتال چلا گیا ، ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس کو ویسے ہی کوئی بیماری لاحق ہوئی ہے، مگر داماد کے گھر والوں نے دعوی کیا کہ اس کو میری بیٹی نے چائے میں زہر ملا کر پلائی ہے، حالاں کہ وہ چائے ہم سب نے پی تھی ، کسی کوکچھ نہیں ہوا، اور داماد بھی عارضی طور پر بیمار رہا، پھر ٹھیک ہوگیا۔ اب انہوں نے اس بنیاد پر میری بیٹی کو تین طلاقیں دی ہیں اور میری بیٹی کا نکاح بعوض ایک تولہ سونا مہر کے ہوا تھا ، اب وہ لوگ اسی بنیاد پر مہر بھی نہیں دے رہے ہیں۔کیا زہر کا یہ دعوی شرعی گواہوں کے بغیر صحیح ہے یا نہیں ؟ اور پھر اس جھوٹے الزام کی بنیاد پر میری بیٹی کو طلاق دینا صحیح تھا یا نہیں ؟ کیا میرے داماد کے گھر والوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ میری بیٹی کا حق مہر اپنے پاس روک دے اور اس کونہ دیں ؟ کیا میری بیٹی کو مہر ملے گا یا نہیں ؟نیز میں نے اپنی بیٹی کے لیے کچھ گھریلو سامان وغیرہ لے کر دیا تھا اور اس کے کپڑے اور چپل وغیرہ بھی داماد کے گھر میں ہیں ، داماد کے گھر والے اب یہ سامان بھی نہیں دے رہے ہیں، کیا ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ؟
وضاحت : طلاق کے الفاظ یہ تھے : میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔
کسی پر بغیر تحقیق و ثبوت کے الزام لگانا شرعا کبیرہ گناہ اور حرام ہے، ازدواجی زندگی میں زوجین کا آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد کے بغیر اس رشتے کو احسن طریقے سے نبھانا ممکن نہیں، ایک دوسرے پر بے جا شک و شبہ ، بے بنیاد باتوں کو ہوا دے کر اپنے گھر کو اجاڑنا نہ شریعت کی نظر میں درست ہے ، نہ دانش مندی کے موافق ہے ۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اور ان کے گھر والوں کا سائل کی بیٹی پر بغیر کسی دلیل کے الزام تراشی کرنا ایک قبیح حرکت ہے جس پر ندامت اور توبہ و استغفارکے ساتھ ، جس پر بہتان لگایا گیا ہو، اس سے معافی مانگنا بھی لازم ہے ۔
مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ تین دفعہ طلاق دینے سے سائل کی بیٹی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، سائل کی بیٹی مذکورہ شخص پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں، اب ان کا اپنے شوہر کے ساتھ نکاح درست نہیں ، عدت (تین ماہواریاں یا اگر حمل ہو تو وضع حمل) گزار کر وہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ،نیز عقد نکاح سے مقرر شدہ مہر ، شوہر پر ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے ، لہذا طلاق کی صورت میں اگر اب تک مہر ادا نہیں کیا تھا تو طلاق کے بعد مقرر شدہ مہر(ایک تولہ سونا ) ادا کرنا مرد پر لازم ہے ۔
جو سامان سائل نے اپنی بیٹی کو دیا، یا اس کے علاوہ استعمال کا دیگر سامان جو سائل کی بیٹی کی ملکیت میں ہے اور مذکورہ شخص کے گھر میں رکھا ہوا ہے ، وہ طلاق کے بعد بھی سائل کی بیٹی کی ہی ملکیت ہے ، مرد کا اس کو روکنا اور مطلقہ کو نہ دینا اس کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے ، جس سے اجتناب لازم ہے ، مرد کو چاہییے کہ فی الفور مہر اور عورت کا سامان اس کے حوالے کرے۔
قرآن کریم میں ہے:
"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} ."[البقرة: 229، 230]
ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے سے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔" (بیان القرآن)
قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے :
" اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا " (سورة النساء ، 58)
ترجمہ : "بے شک تم کو اللہ تعالی اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق پہونچادیا کرو" (بیان القرآن)
صحیح مسلم میں ہے:
"عن سعيد بن زيد رضی اللہ عنه قال : سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول : من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين".
(کتاب المساقاة، باب تحريم الظلم وغصب الأرض وغيرها، ج: 3، ص: 1231، ط: دار إحیاء التراث)
ترجمہ : "جس نے زمین میں سے ایک بالشت بھی ظلم کرتے ہوئے حاصل کی، قیامت کے دن اسے سات زمینوں سے طوق پہنایا جائے گا۔"
کنز العمال میں ہے :
"عن علي رضی اللہ عنه قال: البهتان على البراء أثقل من السموات. (الحكيم)."
(الکتاب الثالث فی الأخلاق، الباب الثانی فی الأخلاق المذمومة، ج: 3، ص: 802، ط: مؤسسة الرسالة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط: سعید)
و فیہ ایضا:
"و يجب عقيب العقد بلا فصل لما ذكرنا أنه يجب بإحداث الملك، و الملك يحدث عقيب العقد بلا فصل، ولأن المعاوضة المطلقة تقتضي ثبوت الملك في العوضين في وقت واحد وقد ثبت الملك في أحد العوضين وهو البضع عقيب العقد، فيثبت في العوض الآخر عقيبه تحقيقا للمعاوضة المطلقة إلا أنه يجب بنفس العقد وجوبا موسعا، وإنما يتضيق عند المطالبة."
(كتاب النكاح، فصل بيان ما يجب به المهر، ج:2، ص: 288، ط: دار الكتب العلمية)
ہدایہ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے :
"ومن سمى مهرا عشرة فما زاد فعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها؛ لأنه بالدخول يتحقق تسليم المبدل، وبه يتأكد البدل، وبالموت ينتهي النكاح نهاية، والشيء بانتهائه يتقرر ويتأكد فيتقرر بجميع مواجبه."
(کتاب النکاح، باب المھر، ج:1، ص: 199، ط: دار إحیاء التراث العربی)
لسان الحکام میں ہے:
"و من سمى مهرًا عشرة فما زاد فعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها، وإن طلقها قبل الدخول بها والخلوة فلها نصف المسمى لقوله تعالى: {وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن} الآية، وشرطه أن يكون قبل الخلوة لأنها كالدخول بها عندنا."
(الفصل الثالث عشر في النكاح، ص: 319، ط: البابي الحلبي)
رد المحتار میں ہے:
"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."
(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص: 158، ط:سعید)
وفیہ ایضا :
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(كتاب الحدود، ج:4، ص:61، ط:سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144611100755
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن