۱) میرے والد محترم سخت بیمار ہیں، بیماری کی شدت میں وہ کبھی کبھار ایسے جملے کہہ دیتے ہیں:”یا اللہ! پھر رات ہو گئی، پھر وہی درد، میں کیا کروں؟ میں تو مر جاؤں! میں نے کس کے ساتھ کیا کیا ہے؟”۔اب ان کلمات کا زبان سے نکلنے کا کیا حکم ہے؟
۲) آج تیسرا دن ہے کہ والد صاحب نماز نہیں پڑھ سکتے۔ نہ بیٹھ کر، نہ لیٹ کر، کیوں کہ وہ سیدھے نہیں لیٹ سکتے۔برائے مہربانی اس کے بارے میں وضاحت دیں کہ وہ کس طرح نماز پڑھیں؟
۱) صورتِ مسئولہ میں والد محترم نے بیماری کی شدت کے باعث جو مایوسی اور جذباتی کلمات کہے ہیں یہ اضطراری کیفیت کی بناء پر قابل مؤاخذہ نہیں، تاہم ایسے مواقع پر بہتر یہ ہے کہ والد صاحب کو تسلی دی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں مثبت سوچ کی طرف مائل کیا جائے۔
۲) اگر والد محترم نہ بیٹھ سکتے ہوں اور نہ سیدھا لیٹ کر نماز پڑھ سکتے ہوں تو وہ دائیں یا بائیں کروٹ قبلہ رُخ ہو کر لیٹ جائیں، اور سر کے اشارے سے رکوع و سجدہ کر کے نماز ادا کریں۔
اگر سر سے اشارے کی بھی طاقت نہ ہو تو نماز معاف ہے۔
پھر اگر یہ بےبسی کی حالت ایک دن رات سے زیادہ رہی تو ایسی نمازوں کی قضا بھی واجب نہیں۔
لیکن اگر یہ حالت ایک دن رات سے کم رہی، اور بعد میں سر کے اشارے سے نماز پڑھنے کی طاقت آ گئی تو ان نمازوں کی قضا اشارے سے ہی لازم ہوگی۔
اسی اصول سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اگر والد صاحب نے تین دن کی نمازیں نہیں پڑھیں، اور ان دنوں میں وہ دائیں یا بائیں کروٹ پر لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھنے کی طاقت رکھتے تھے تو ان نمازوں کی قضا ان پر واجب ہے، لیکن اگر وہ اس پر بھی قادر نہ تھے تو قضا لازم نہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"رجل قال في مرضه وضيق عيشه: بارى بدا نمى كه خداي تعالى مراجرا آفريده است جون ازلذتهاى دنيا مراهيج نيست فقد قيل: لا يكفر، ولكن هذا الكلام خطأ عظيم."
(کتاب السیر، الباب التاسع في أحكام المرتدين، ج:2، ص:262، ط:دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وإن تعذر القعود) ولو حكما (أومأ مستلقيا) على ظهره (ورجلاه نحو القبلة) غير أنه ينصب ركبتيه لكراهة مد الرجل إلى القبلة ويرفع رأسه يسيرا ليصير وجهه إليها (أو على جنبه الأيمن) أو الأيسر ووجهه إليها (والأول أفضل) على المعتمد.
(قوله والأول أفضل) لأن المستلقي يقع إيماؤه إلى القبلة والمضطجع يقع منحرفا عنها بحر."
(كتاب الصلاة، باب صلاة المريض، ج:2، ص:99، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإذا عجز المريض عن الإيماء بالرأس في ظاهر الرواية يسقط عنه فرض الصلاة ولا يعتبر الإيماء بالعينين والحاجبين ثم إذا خف مرضه هل يلزمه القضاء اختلفوا فيه قال بعضهم: إن زاد عجزه على يوم وليلة لا يلزمه القضاء وإن كان دون ذلك يلزمه كما في الإغماء وهو الأصح، هكذا في فتاوى قاضي خان، والفتوى عليه، كذا في الظهيرية، وإن مات من ذلك المرض لا شيء عليه ولا يلزمه فدية، كذا في المحيط."
(كتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج:1، ص:137، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144611102225
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن