میرے داماد کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی بیوہ اپنی عدت اپنے شوہر کے ساتھ جس گھر میں رہتی تھی، اس گھر میں کرے گی یا اپنے والدین کے گھر پر کرے گی؟ جب کہ اس گھر میں اس کی ساس ہے، جو کہ اس کی سگی مامی ہیں اور جٹھانی اور جیٹھ اور دیور رہتے ہیں، کسی خاتون نے کہا کہ بیوہ اپنے والدین کے گھر عدت کرے گی ۔
عدت سے متعلق حکم یہ ہے کہ عورت اسی گھر عدت گزارے جس گھر میں زندگی میں شوہر کے ساتھ رہا کرتی تھی، عدت کے دوران دیور اور جیٹھ سے پردہ کرنے کا اہتمام کرنا ضروری ہوگا، تاہم اگر کوئی شدید عذر ہو، مثلاً کرائے کا گھر ہو اور کرایہ دار اس کو زبردستی خالی کرواتا ہو یا پرانا ہونے کی وجہ سے منہدم ہوتا ہو تو ایسے شدید عذر کی صورت میں اس گھر سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی اجازت ہو گی، اگر ایسا کوئی عذر نہیں تو شوہر کے گھر سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونا درست نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔۔۔(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط:سعيد)
وفیہ ایضاً:
"يلزم أن تلزم المنزل الذي يسكنان فيه قبل الطلاق."
(باب النفقة، مطلب في نفقة المطلقة، ج:3، ص:609، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101470
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن