عبداللہ نے مرنے سے پہلے اپنے مکمل ہوش و حواس میں اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارا یہ گھر فلاں بیٹے کا ہوگا ،جبکہ عبداللہ کی دو لڑکیاں بھی ہیں، کیاعبداللہ کے انتقال کے بعد یہ گھر صرف اس کے ایک بیٹے کا ہوگا یا دونوں بیٹیاں بھی اس کی حق دار ہوں گی؟
واضح رہے کہ وارث کے حق میں وصیت شرعاً معتبر اور نافذ العمل نہیں ہوتی، اس لیے کہ شریعت مطہرہ نے ہر وارث کا شرعی حصہ متعین کردیا ہے االبتہ اگر مرحوم کے تمام ورثاءبشرطیکہ وہ عاقل و بالغ ہوں اور وہ اس وصیت پر عمل کرنے پر راضی ہوں تو اس صورت میں یہ وصیت نافذ العمل ہوتی ہے،اوراگر راضی نہ ہوں تو ایسی وصیت کالعدم قرار پاتی ہے اور ہر وارث اپنے اپنے شرعی حصہ کے بقدر میراث میں حق دار ہوتا ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں مرحوم عبداللہ نے اپنے بیٹے کے لیے جو وصیت کی ہے، اگر اس وصیت پر عمل کرنے پر تمام عاقل بالغ ورثاءبشمول دونوں بیٹیاں راضی ہوں تو اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہوگا اور اگر بعض راضی ہوں ،بعض راضی نہ ہوں تو جو راضی نہیں ہے اس کو اس کا پورا شرعی حصہ دیا جائے گا، اور جو راضی ہوں ان کے حصے میں وصیت معتبر ہو گی،اور اگرکوئی بھی راضی نہ ہوں تو یہ وصیت شرعاً غیر معتبر ہےاور ایسی صورت میں مرحوم کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد شرعی میراث کے قانون کے اعتبار سے تقسیم ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر
(کتاب الوصایا، ص/656، ج/6، ط/سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100550
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن