بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے گاڑی لینے کا حکم


سوال

بینک سے گاڑی نکلوانا کیسا ہے؟

جواب

بینک سے گاڑی خریدنے میں درج ذیل دو شرعی قباحتیں ہیں، جن کی وجہ سے بینک سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز نہیں:

1-  پہلی قباحت یہ ہے کہ بینک سے خریدنے والے اور بینک کے درمیان معاہدہ کے تحت دو عقد ہوتے ہیں، ایک بیع (خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) ، اور یہ طے پاتاہے کہ اقساط میں سے اگر کوئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو خریدار  بینک کی جانب سے مقرر ہ جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا، جو کہ شرعاً جائز نہیں، جیساکہ فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا باخذ مال في المذهب ) .... إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

( باب التعزير: مطلب في التعزير بأخذ المال : (٦١/٤)  ط: سعيد)

2-  دوسری قباحت یہ ہے کہ بینک سے قسطوں پر خریدتے وقت دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں، ایک بیع کا عقد ہوتا ہے جس کی بنا پر خریدار  پر قسطوں کی ادائیگی واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی اجارہ ( کرائے ) کا عقد بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر بینک خریدار سے ہر ماہ کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں جو کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ناجائز ہیں:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة.رواه مالك و الترمذي و أبوداؤد و النسائي.و عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة. رواه في شرح السنة."

پس مذکورہ بالا شرعی قباحتوں کی بنا پر  بینک سے  لیزنگ پر گاڑی لینا جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں