بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 ذو الحجة 1446ھ 15 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

باہمی رضا مندی سے کی گئی تقسیم کی شرعی حیثیت


سوال

مجھے اور میرے بھائی کو وراثت میں ایک پلاٹ ملا جو 800 گز پر مشتمل تھا۔ 2008 میں ہم دونوں بھائیوں نے باہمی رضامندی سے اس پلاٹ کو تقسیم کر لیا۔ اس تقسیم کے مطابق مجھے 300 گز اور بھائی کو 500 گز زمین ملی، اور نفع و نقصان میں  دونوں (زمینیں ) برابر تھی۔ یہ تقسیم مکمل باہمی رضا مندی سے ہوئی اور اس پر مکمل دستاویزی ثبوت (ڈاکومنٹ) بھی موجود ہے۔

2015 میں میرے بھائی کا انتقال ہوا، اب2025 میں اُن کی اولاد یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اُس وقت کی گئی تقسیم درست نہیں تھی، کیونکہ اب میرے حصے کی زمین کی قیمت زیادہ ہو گئی ہے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ زمین کو ازسرِنو تقسیم کیا جائے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا اُن کا یہ مطالبہ شرعی  اعتبار سے درست ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ زمین صرف سائل اور ان کے مرحوم بھائی کا حصہ تھی ، یعنی سائل اور مرحوم بھائی دونوں اس زمین کے  بطور وراثت کے مالک بنے تھے ، اور 2008 میں دونوں بھائیوں نے باہمی رضامندی سے اس زمین کو تقسیم کرکے ہر ایک نے اپنے اپنے حصے پر قبضہ کرلیا تھا، اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے ، تو شرعاً یہ تقسیم درست تھی ، اور ہر بھائی اپنے اپنے حصے کا مالک بن چکا تھا۔

اب مذکورہ بھائی کے انتقال کے بعد اُن کی اولاد کا یہ دعویٰ کرنا کہ  سابقہ تقسیم درست نہیں تھی، اور ازسرِنو تقسیم کا مطالبہ کرنا، شرعاً جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"ومنها اللزوم بعد تمامها في النوعين جميعا، حتى لا يحتمل الرجوع عنها إذا تمت.وأما قبل التمام فكذلك في أحد نوعي القسمة، وهو قسمة القضاء دون النوع الآخر، وهو قسمة الشركاء، بيان ذلك: أن الدار إذا كانت مشتركة بين قوم فقسمها القاضي أو الشركاء بالتراضي فخرجت السهام كلها بالقرعة؛ لا يجوز لهم الرجوع، وكذا إذا خرج الكل إلا سهم واحد؛ لأن ذلك خروج السهام كلها؛ لكون ذلك السهم متعينا بمن بقي من الشركاء، وإن خرج بعض السهام دون البعض فكذلك في قسمة القضاء؛ لأنه لو رجع أحدهم لأجبره القاضي على القسمة ثانيا فلا يفيد رجوعه."

(کتاب القسمة،فصل فی صفات القسمة،ج:7،ص:28،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإن كانت الدار بين رجلين فاقتسما على أن يأخذ أحدهما الثلث من مؤخرها بجميع حقه ويأخذ الآخر الثلثين من مقدمها بجميع حقه فلكل واحد منهما أن يرجع عن ذلك ما لم تقع الحدود بينهما ولا يعتبر رضاهما بما قالا قبل وقوع الحدود وإنما يعتبر رضاهما بعد وقوع الحدود كذا في الذخيرة."

 (کتاب القسمة،الباب الخامس،ج:5،ص:217،ط:الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فتاوی دار العلوم دیو بند میں ہے:

"سوال:  دو شخص نے ایک زمین مشترکہ کا ٹھیکہ لیا، بعدہ اپنی رضا مندی سے تقسیم کر لی جس کو پچاس برس گزر چکے ، اب چونکہ زمین با وقعت ہوگئی ہے تو وہ فریق جس کے پاس کچھ زمین کم ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے زمین پوری برابر کر دو، اس صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟ 

الجواب: جب کہ پہلے باہمی رضا مندی سے زمین مذکور تقسیم کر لی گئی تو اب کوئی فریق کسی دوسرے فریق پر کچھ دعوی نہیں کر سکتا ۔"

(کتاب الشرکۃوالقسمۃ،ج:13،ص:93،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں