بیوی ایک سال تک اپنے شوہر کی خواہش کے باوجود قریب نہ آئے تو شریعت کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ بیوی کی ذمہ شوہر کے ہر جائز اور مباح امر کی بقدر طاقت اطاعت واجب ہے، انہی کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ جب شوہر اپنی طرف یعنی جماع کی طرف بلائے تو اس کی اطاعت کرے۔ احادیث میں شوہر کے بلانے پر بیوی کے نہ جانے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "جب کسی مرد نےاپنی بیوی کو جماع کی طرف بلایا اور اس نے انکار کیا اور شوہر نے رات غصے میں گزاری تو فرشتے صبح تک اس بیوی پر لعنت بھیجتے ہیں" ۔
لہذا کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کو بغیر کسی شرعی عذر کے قریب آنے نہ دے۔
مذکورہ صورت حال میں مرد کو چاہیے کہ بیوی کو حکمت کے ساتھ سمجھائے، اگر وہ پھر بھی قریب نہ آئے جب کہ اسے کوئی شرعی عذر بھی نہ ہو تو شوہر کو زبردستی اس سے صحبت کا حق حاصل ہوگا۔ اگر شوہر زبردستی نہ چاہے یا کامیاب نہ ہو تو اسے بیوی کی مناسب تادیب (سرزنش) کا بھی حق ہے اور چاہے تو دوسرا نکاح بھی کرسکتا ہے۔
مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح."
(باب عشرة النساء، ص/280، ج/2، ط/قدیمی)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(لعنتها الملائكة) : لأنها كانت مأمورة إلى طاعة زوجها في غير معصية قيل: والحيض ليس بعذر في الامتناع لأن له حقا في الاستمتاع بما فوق الإزار عند الجمهور."
(باب عشرۃ النساء، ص/2121، ج/5، ط/دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وحقّه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.
(قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به."
(باب القسم، ص/۲۰۸، ج/۳، ط/قدیمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402101277
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن