بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اٹیچ باتھ میں واش بیسن پر وضو کرنا اور دعائیں پڑھنا


سوال

1۔ آج کل گھروں میں اٹیچ باتھ ہوتا ہے، کیا اس میں پیشاب کرنے کے بعد واش بیسن پر کھڑے ہو کر وضو کرنا جائز ہے؟

2۔  اور کیا وضو کے اول، آخر اور درمیان والی دعائیں دل میں پڑھنی ہوں گی یا زبان سے بھی پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

1۔ واش بیسن چاہے اٹیچ باتھ  یا باتھ روم کے اندر ہو یا باہر الگ سے لگا ہو، اس پر کھڑے ہوکر وضو کرنا جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ قضائے حاجت کی جگہ سے الگ ہٹ کرکسی پاک جگہ قبلہ رخ  بیٹھ کر سنت کے مطابق وضو کیا جائے۔

2۔  ایسا اٹیچ باتھ یا باتھ روم جس میں غسل خانہ اوربیت الخلا مشترک ہو اور اس میں داخل ہونےکے لیے ایک ہی دروازہ ہو اور قضائے حاجت کی جگہ اور غسل کی جگہ کے درمیان کوئی دیوار یا آڑ نہیں ہو، اس قسم کے اٹیچ باتھ یا باتھ روم میں وضو کے شروع اور درمیان کی  دعائیں زبان سے پڑھنا منع ہے؛ کیوں کہ درمیان میں آڑ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیت الخلامیں پڑھنا شمارہوگا، اوربیت الخلا میں اذکار پڑھنےسے شریعت نے منع کیا ہے، ایسی جگہ دل ہی دل میں زبان کو حرکت دیے بغیر پڑھنے کی اجازت ہے۔ اور وضو کے بعد والی دعا باتھ روم سے باہر آکر پڑھ لی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، باب سنن الوضوء، 1/ 124:

"ومن آدابه استقبال القبلة ... والجلوس في مكان مرتفع."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، باب سنن الوضوء، 1/ 133:

"ومن منهياته: التوضؤ بفضل ماء المرأة وفي موضع نجس؛ لأن لماء الوضوء حرمة.

(قوله: ومن منهياته) يشمل المكروه تنزيها فإنه منهي عنه اصطلاحا حقيقة كما قدمناه عن التحرير آنفا، فافهم."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، باب سنن الغسل، 1/ 156:

"(قوله: وآدابه كآدابه) نص عليه في البدائع: قال الشرنبلالي: ويستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقا، أما كلام الناس فلكراهته حال الكشف، وأما الدعاء فلأنه في مصب المستعمل ومحل الأقذار والأوحال اهـ."
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري، باب سنن الطهارة، 1/ 5:

"(قوله: وتسمية الله تعالى في ابتداء الوضوء) الكلام فيها في ثلاثة مواضع كيفيتها وصفتها ووقتها أما كيفيتها فبسم الله العظيم والحمد لله على دين الإسلام، وإن قال بسم الله الرحمن الرحيم أجزأه؛ لأن المراد من التسمية هنا مجرد ذكر اسم الله تعالى لا التسمية على التعيين وأما صفتها فذكر الشيخ أنها سنة واختار صاحب الهداية أنها مستحبة قال وهو الصحيح، وأما وقتها فقبل الاستنجاء وبعده هو الصحيح فإن أراد أن يسمي للاستنجاء سمى قبل كشف العورة فإن كشف قبل التسمية سمى بقلبه ولا يحرك بها لسانه؛ لأن ذكر الله حال الانكشاف غير مستحب تعظيما لاسم الله تعالى فإن نسي التسمية في أول الطهارة أتى بها متى ذكرها قبل الفراغ حتى لا يخلو الوضوء منها."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، باب سنن الوضوء، 1/ 109:

"وتحصل بكل ذكر، لكن الوارد عنه عليه الصلاة والسلام: «باسم الله العظيم، والحمد لله على دين الإسلام» (قبل الاستنجاء وبعده) إلا حال انكشاف وفي محل نجاسة فيسمي بقلبه؛ ولو نسيها فسمى في خلاله لاتحصل السنة، بل المندوب. وأما الأكل فتحصل السنة في باقيه لا فيما فات، وليقل: بسم الله أوله وآخره.

(قوله: إلا حال انكشاف إلخ) الظاهر أن المراد أنه يسمي قبل رفع ثيابه إن كان في غير المكان المعد لقضاء الحاجة، وإلا فقبل دخوله، فلو نسي فيهما سمى بقلبه، ولايحرك لسانه تعظيمًا لاسم الله تعالى (قوله: بل المندوب) قال في السراج: إنه يأتي بها لئلايخلو وضوءه عنها، وقالوا: إنها عند غسل كل عضو مندوبة نهر." فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں