بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایڈز دیکھ کر پیسے کمانے کا حکم


سوال

 آج کل  آن لائن کمائی کی  ایک صورت ہے جس  میں پیسے ڈالروں میں انویسٹ کیے جاتے ہیں،  اس کے بعد سب سے پہلے ان کو بونس کے طور پر کچھ رقم دی جاتی ہے اور پھر  ہرروز ان کو کچھ ٹاسک  دیا جاتا ہے ایڈز  دیکھنے کا جو بمشکل پانچ منٹ  میں پورا ہو جاتا ہے اور  اس ٹاسک کو پورہ کرنے کے بدلےدو ڈالر   روز دی دے جاتے ہیں اور تقریبا ایک سو  ڈالر پورے ہونے پراس کو اپنے اکاونٹ سے نکال سکھتے ہیں بمع اپنے ان ڈالرروں کے جو پہلے جمع کیے تھے، تو کیا اس طرح کی کمائی جائز ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں  ایڈ دیکھنے  سے  کمائی درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1۔۔ اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

 2۔۔ جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں؛ لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3۔۔ ان اشتہارات میں بسا اوقات  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

4۔  نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ۔

حدیث شریف میں ہے:

أخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان أنا عبد الله بن جعفر بن درستويه ثنا يعقوب بن سفيان ثنا أبو نعيم و قبيصة قالا: سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم أي الكسب أطيب ؟ قال:عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور

( شعب الإيمان - للبيهقي، ج: ۲، صفحہ: ۸۴، رقم الحدیث: ۱۲۲۵، ط:   دار الكتب العلمية - بيروت)

شرح المشكاة للطيبي میں ہے:

"قوله: ((مبرور)) أي ‌مقبول ‌في ‌الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج: ۷، صفحہ: ۲۱۱۲، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز)

 

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

(باب الإجارة الفاسدة، مطلب في استئجار الماء مع القناة واستئجار الآجام والحياض للسمك، ج: 6، صفحہ: 63، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں